کراچی کی سڑکیں اور گلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتہائی ھیبت ناک منظر پیش کررہی ہیں۔ اگست میں بارشوں شروع ہونے والا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔یوں تو بارش رب تعالیٰ کی رحمت ہے۔ مگر سندھ حکومت کی نااہلی اور غفلتوں کے سبب یہ زحمت میں تبدیل ہونے میں ذرہ برابر بھی توقف نہیں کرتی۔ اس پر یہ کہہ کر جان بچائی ہرگز نہیں ہو سکتی کہ بارش بہت زیادہ ہوئی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کا فن بھی سیکھ لینا چاہیے۔
یہی فن سندھ حکومت نے بھی سیکھا ہوا ہے۔ بارشوں کے بعد کئی گھنٹوں، بلکہ کئی دنوں تک سڑکوں پر پانی کا جمع رہنا ،کئی بیماریوں کا سبب بھی بن رہا ہے اور صرف بیماریاں ہی نہیں ، مکھیوں اور مچھروں کی آمدورفت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔طلوع آفتاب کے ساتھ ہی مکھیوں کی بھر مار، تو غروب آفتاب کے ساتھ مچھروں کی یلغار۔ بے چاری عوام کس کس کا مقابلہ کرے۔۔۔۔۔۔۔؟؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ بارشوں سے پہلے ہی تمام تر منصوبے بنالیے جاتے مثلاً: بڑے اور چھوٹے نالوں کی صفائی، گلیوں میں گٹر لائنوں کی صفائی وغیرہ۔ یا کم از کم اب بارشوں کے بعد جن مقامات پر پانی جمع ہے۔
انہیں نکالنے کے لیے کوئی مناسب طریقہ اختیار کیا جاتا ۔کیوں کہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پر پانی کا ٹھہرا رہنا لوگوں کی نظام زندگی متاثر ہونے کا ذریعہ ہے۔ اور عوام الناس کو بڑی دشواریوں کا سامنا ہے۔بارشیں کم ہوں یا زیادہ، بارشوں کا ہونا یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ لیکن اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا سد باب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
محکمہ موسمیات کی ممکنہ پیشین گوئی کے مطابق ذمہ داران کو یہ بات کان دھر لینی چاہیے اور بارش سے قبل موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات پہلے ہی کر لینے چاہئیں۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔