چانس آف دی سینچریز! (انشال راؤ)

فاشزم کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں دیا، اٹلی اور جرمنی کی مثال دنیا کے سامنے ہے، فاشزم کے زیر سایہ دونوں ممالک ایک حد تک ہی پھل پھول پائے اور اپنے عروج کے تھوڑے ہی عرصے بعد تنزلی و تباہی ان کا مقدر ہوگئی، آج ایک بار پھر دنیا بھارتی ہندوتواکریسی کی شکل میں فاشزم کی بھیانک ترین صورتحال سے دوچار ہے، ہندوتوا ایک ایسا مبہم نظریہ تھا کہ جس پہ خود مصنف کو بھی یقین نہیں تھا کہ جب پہلی بار یہ کتاب شایع ہوئی تو بغیر مصنف کے نام کے ہوئی، معروف بھارتی دانشور اے جی نورانی کی کتاب کے عنوان RSS: A Menace To India سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود بھارت میں اس نظریہ کو بھارت و بھارت میں بسنے والوں کے لیے خطرے سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھارتی سرکار کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں بھی اسی پس منظر کا حصہ تھیں کہ بھارتی حتیٰ کہ اندرا گاندھی نے بھی اسے بھارت کے وجود و امن کے لیے خطرہ سمجھا، جس طرح کہ ڈاکٹر لارنس برٹ نے کہا کہ فاشزم کا اہم ہتھیار مذہب کا غلط استعمال، کنٹرولڈ میڈیا، کسی دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرنا، اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دوسرے مذاہب و اقوام کو دشمن کے طور پر پیش کرنا، خوف و حراس پھیلانا وغیرہ، اگر ان نکات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہندوتوا نظریہ ہی اسلام دشمنی پہ قائم ہے، بھارت میں ہندوتوا کے عملبردار گروہ یعنی سٙنگھ پریوار کے جھنڈے تلے یوں تو پچاس سے زائد تنظیمیں کام کررہی ہیں جن کی جڑ یا بنیاد RSS و بجرنگ دل ہی ہے، موجودہ حکمران جماعت BJP راشٹریہ سویم سیوک سنگھ RSS ہی کی پولیٹیکل ونگ ہے جس نے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی انسانیت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے BJP کے ہندوتوا سُپرمیسی کے خواب نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو داو پہ لگادیا ہے، صرف دس ہفتوں کے مختصر عرصے میں ایک طرف تو بھارت میں اقلیتوں کے لیے سانس لینا تنگ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف کشمیر کے کروڑ سے زائد افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈالدی ہیں، جنوری کے اوائل کی بات ہے تریپورہ میں سو کے لگ بھگ مسیحی خاندانوں کو زبردستی ہندو مذہب میں شامل کیا گیا اس کے علاوہ سینکڑوں مسلمان خاندانوں کیساتھ بھی ایسا ہی جبر اپنایا گیا ہے جوکہ ریاستی سرپرستی میں جاری و ساری ہے، آئے روز کسی نہ کسی مسلمان کو ہندوتوا بھیڑئیے اپنی حوس کا نشانہ بنالیتے ہیں اور ریاست کی طرف سے دادرسی تو دور مقدمہ بھی متاثرین کے خلاف ہی بنادیا جاتا ہے، کسی کو بھی گائے کے گوشت کا الزام لگاکر قتل کردیا جاتا ہے، آئے روز مسلمانوں کو جے شری رام کا نعرہ لگانے پہ مجبور کیا جاتا ہے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے علاوہ عیسائیوں، دٙلِت، سکھ حضرات بھی ہندوتوا کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں، بھارت جوکہ بین المذاہب و بین الّسانی ملک ہے، ہندوتوا دہشتگردوں کے اعلانیہ عزائم و دہشتگردانہ روئیے کے نتیجے میں شدید خوف و عدم تحفظ کا شکار ہیں اور شدید قسم کی نفرتیں بھارتی معاشرے میں سرایت کرچکی ہیں بلکہ یوں کہیے کہ یہ ایک آتش فشاں بنتا جارہا ہے جوکہ مستقبل قریب میں ضرور پھٹنا ہے، بھارتی ہندوتوا سرکار نے جہاں کشمیریوں کو غلام بنانے کا عملی منصوبہ شروع کیا ہے تو وہیں ایک نام نہاد بل NCR کے زریعے لاکھوں خاندانوں سے شہریت چھین لی ہے جس کا دائرہ کار مزید بڑھتا جائیگا، بھارت میں شدید ترین بغاوت کا ماحول بن رہا ہے، نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر اعتراف کیا کہ ہندوتوا دہشتگردوں نے روپ دھار کر مکتی باہنی میں حصہ لیا اور پاکستان کو دو لخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جب مشرقی پاکستان کے حالات نازک تھے تو سبرامینیم نے کہا تھا “it is the chance of the century” بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور بھارت نے جارحیت کی جسکے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا، اٹلی اور جرمنی میں فاشزم اس لیے کامیاب رہی کہ وہاں کی کل آبادی ایک قوم پر مشتمل تھی جبکہ بھارت میں ہندوتوا نظریہ کے ماننے والوں کی بیشک اکثریت ہے مگر وہاں مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے اور دیگر اقلیتیں سکھ، عیسائی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اس کے علاوہ دلت سماج بھی ہندوتوا دہشتگردوں سے تنگ ہیں، جس طرح روس کی افغان جارحیت پر امریکہ کی طرف سے بیان آیا کہ “Soon We Will Back Vietnam War To Soviet” اور پھر پس پردہ رہ کر اپنے راستے کا کانٹا نکال پھینکا، بالکل اسی طرح بھارت میں ہندوتوا کی سوچ و عمل سے بننے والی صورتحال پاکستان کے لیے Chance Of The Centuries چانس آف دی سینچریز ہے اب وہ وقت ہے کہ ہم بھارت کو سارے قرضے چکا سکتے ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں