حضرت علیؑ کا فرمان ہے کہ کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس میں کمزور تو پھنس جاتا ہے لیکن طاقتور اسے توڑ کر نکل جاتا ہے۔ دنیا میں مختلف قسم کے نظام عدل قائم رہے کہیں بادشاہ سلامت کے فرمودات قانون بنے، کہیں عبادت گاہوں کے رکھوالے معاشرے کو اپنی ڈھب پر ترتیب دیتے رہے غرض یہ کہ ہر دور میں قانون کسی نا کسی طرح سے ماتحت ہی رہاآزاد نہیں ہوسکا۔ قانون معاشرے کی سدھار کیلئے لازمی جز قرار پایا۔ ہر مذہب ہی اپنے ماننے والوں کو اچھائی کی تعلیم دیتا ہے اوراپنے پیروکاروں سے اچھائی کا طلبگار ہے لیکن ایسا ممکن نہیں کہ سب کچھ اچھا ہی اچھا ہوتا چلا جائے، دوسری طرف اچھائی کا درس دینے والے، اچھائی کا لبادہ اوڑھنے والے خود ہی برائی کے کاموں میں پڑ جائیں۔ جدید معاشرے سے قبل یعنی مادہ پرستی شروع ہونے سے پہلے تقریباً ہر معاشرے میں مذہب کا عنصر کلیدی حیثیت کا حامل رہا۔ایک وہ وقت بھی تھا جب مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کا قتل کیا جاتا تھا یعنی منتوں کیلئے عبادت گاہوں اورلوگوں کی سلامتی کیلئے، دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے جیتے جاگتے انسانوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔ ہمیں زیادہ تاریخ کی ورق گردانی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج بھارت کے اندراور مقبوضہ وادی کشمیر میں کیا ہو رہا ہے نا قابل بیان سفاکی اور بیدردی سے ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے گھروں سے ماؤں بہنوں بچوں کے سامنے قتل عام کیا جا رہا ہے، چادر اور چار دیواری کو پامال کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے فلسطینی بھائیوں کیساتھ ہونے والا سلوک بھی کچھ بھارتی عزائم سے مختلف نہیں ہے، بھارتی عزائم اسرائیل کی ترغیب پر عمل میں آئے ہیں۔ جہاں ان عزائم کا مقصد سیاسی یا پھر دیرینہ غلامی کی بھڑاس ہونے کیساتھ ساتھ مذہب کی زمانہ جاہلیت والی روایات کی پاسداری بھی ہے۔
اسلام وہ آفاقی دین ہے جو انسان کو دنیا میں رہنے کے تمام امور پر صرف رہنمائی نہیں کرتا بلکہ باقاعدہ سکھاتا ہے۔ کیا یہ اسلام نہیں جس نے معاشرے کو تحمل اور برداشت جیسی نایاب طبعیتوں سے روشناس کرایا، انسانوں کو برابری کا درس دیا، رنگ و نسل سے نجات دلائی، عورتوں کو معاشرے میں اعلی ترین مقام دیا سب سے بڑھ کر ہر عمل کی پشت پر انصاف کو ہر حال میں نافذ العمل رکھنے کی تلقین کی اور بھر پور عملداری کا تقاضہ کیا۔یہ اسلام ہی تھا جس نے مذہبی جنونیت سے معاشرے کونجات دلوائی اور مذہب کو معاشرتی امور سمیت زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات بنا کر پیش کیا۔اسلام کے اصولوں کی پاسداری ایک اچھا مسلمان بنا دیتی ہے لیکن مکمل پاسداری ایک بہت ہی اچھا انسان بنا دیتی ہے، قرآن نے بارہا ہمارے پیارے نبی ﷺ کو انسانیت کی رہنمائی کیلئے پھیجا اور آج بھی دنیا قرآن، احادیث اور سنت سے ناصرف مستفید ہورہی ہے بلکہ اپنے طرز عمل سے اپنی نسلوں کی تربیت میں بھی شامل کر رہی ہے۔ پہلے زمانوں میں تجارت اشیاء کی لین دین سے ہوا کرتی تھی کسی چیز کے بدلے کوئی چیز دے دی جاتی تھی۔ بد قسمتی سے مسلمانوں نے دنیا کی آسائشوں کے بدلے میں اپنی اقدار اپنی اخلاقیات اپنی دور اندیشی اپنی معاملہ فہمی اور سب سے بڑھ کر اپنا انصاف دے دیا۔ ایک طائرنہ نظر مسلم دنیا پر ڈال لیجئے اور دوسری نظر غیر مسلم دنیا پر ڈال لیجئے فرق واضح ہوجائے گا۔
پاکستان کا وجود دنیا کیلئے کسی معجزے سے کم نہیں ہے اور دنیا اس معجزے سے ڈری سہمی ہوئی ہے۔پاکستان جسے مسلم دنیا میں قدرت نے بہت اہم مقام پر لاکھڑا کیا ہے، کیا وجہ رہی ہوگی کہ انڈونیشیاء جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت نہیں بن سکا، یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ اسکے پڑوس میں کوئی بھارت جیسا ملک نہیں ہوگا۔ پاکستان میں بدعنوانی کی بیضابطگیوں کی طویل داستان ہے لیکن پاکستان جیسے تیسے اپنے پیروں پر کھڑا ہے جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں دیکھا رہا ہے۔ ہم سے کئی گنا بڑے دشمن،جن سے ساری دنیا خوفزدہ ہے وہ ہم سے خوفزدہ ہیں، ہم پس پردہ دنیا کی تین بڑی طاقتوں سے مختلف مقامات پر لڑتے ہوئے شکست فاش دے چکے ہیں، ہم پچھلی دو دہائیوں سے ایک ایسے اندیکھے دشمن سے برسر پیکار ہیں جس سے خوفزدہ ہوکر بڑے بڑے ملکوں نے ہاتھ کھڑے کردئیے ہیں، اسے (دہشت گردی) بھی ہم نے مات دی۔ پاکستان کا ہر دشمن اپنے دانت کھٹے کئے بیٹھا ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے انصاف کی بالادستی کو یقینی نہیں بنا سکا، یہاں بھی جاگیردار، وڈیرے اور اثر و رسوخ والے لوگوں نے تھانہ اور کچہری کو اپنی بیٹھک سے زیادہ کبھی اہمیت نہیں دی۔ صلاح الدین کا جرم کیا اتنا سنگین تھا کہ اسے اس پر ایسا بیہیمانہ تشد د کیا جاتا کہ وہ اپنی جان سے ہی ہاتھ دھوبیٹھا، یا پھر اس خاتون (فائزہ نواز)پولیس والی کا قصو ر اتنا تھا کہ وہ عورت ہو کر اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبہا رہی تھی۔ یہ ناانصافی اور سفاکی کی منہ بولتی دوتصویریں سماجی میڈیاپر دیکھائی دے رہی ہیں ایک طرف ہم بھارتیوں کے ظلم کی داستانیں دنیا کو سنا رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے گھر میں یہ کام کررہے ہیں۔ یوں تو نامعلوم کتنے صلاح الدین پولیس گردی کا شکار ہوجاتے ہیں۔شاہزیب کا کیس ہے اور نقیب اللہ کا کیس ہے ایسے بہت سارے کیسس ہیں جن کا سراغ بھی لگا لیا جاتا ہے لیکن یہ اثر و رسوخ کی نظر ہوجاتے ہیں۔ معلوم نہیں کتنے ہی منظر عام پر آنے سے پہلے ہی منظر سے ہمیشہ کیلئے غائب ہوجاتے ہیں، آج بھی کتنے ہی نجی قید خانے جوکہ درحقیقت حکم عدولی کرنے والوں کیلئے عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں موجود ہیں۔ آج میڈیا کے اس دور میں بھی جہالت بام عروج پر ہے، ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں زندگی آج بھی سسک سسک کر گزاری جاتی ہے۔ ان اثرو رسوخ رکھنے والوں کے بچے توان دیہاتوں سے نکل کر بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے ملک سے باہر اعلی تعلیم حاصل کرنے چلے جاتے ہیں لیکن غریب کا بچہ انکے گھروں میں انکی زمینوں پر آج بھی ۰۳۹۱ والی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ جو بدلا ہوا تھا اور جو بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا اسے بدل کر کیا کمال کیا ہے۔اداروں کا استحکام اور عوام پر انکا اعتماد اسوقت تک نہیں ہوسکتا جب تک عام لوگوں کو انکی قابلیت کے بل بوتے پر آگے نہیں لایا جائے گا۔ تقسیم کا نظام برابری کی بنیاد پر نہیں کیا جائے گا، زمین جائیداد کی حد کا تعین کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے کہ جرم اور مجرم دونوں حیثیت کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ریاست مدینہ کی بنیاد اسوقت تک نہیں پڑ سکتی جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داری اپنے عہد کیمطابق نبھانا نہیں شروع کردیتے۔ جب تک ایک عام آدمی اپنی فریاد لیکر بغیر کسی خوف کہ تھانہ میں داخل نہیں ہوجاتا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تھانے مکمل طور پر حفاظتی کیمروں سے مزین ہوں تاکہ کالی بھیڑوں کی شناخت باآسانی کی جاسکے، تو یہاں کیمرے والے موبائل فون پر تھانے میں پابندی لگا دی گئی ہے جس سے یقینا ادارے کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ خدارا انصاف کی بحالی، انسان کو انسان سمجھنے میں ہی ہے پھر ایک بار اس بات پر دھیان دیں کہ ہم کشمیر میں بھارت کی جانب سے وردی میں ملبوس دہشت گردوں کو دنیا کے سامنے بینقاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہیں ایسا نا ہوکہ دنیا ہماری طرف ہی انگلیاں اٹھانا شروع کردے۔