انسان کی تخلیق قدرت کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ جسے کبھی سمجھا نہیں جا سکتا ۔ انسان کو مختلف قسم کی بیماریوں سے نمٹنے کیلئے بہت پڑھنا پڑتا ہے کھوج لگانی پرتی ہے ، پھر بھی بیماریوں سے نجات نہیں ملتی جز وقتی آرام مل جاتا ہے ۔ جیسا کہ آفاقی کتاب ، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت واضح الفاظ میں یہ پیغام رہتی دنیا تک کیلئے پہنچادیا ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ یعنی جسے قادر مطلق نے دنیا کی رعنائیوں سے مستفید ہونے کیلئے پیدا کیا ہے ، اپنی قدرت کو پہچاننے اور اپنے آپ کو راضی کرنے کا موقع دیا ہے اور پھر اپنے پاس واپس بلانے کا اعلانیہ بھی جاری کررکھا ہے ۔ دنیا جہان کے انسانوں کی شکلیں ہیں بلکہ عادات و اطوار و محسوسات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ انسان کے اندر جاننے کا شوق آگے بڑھتا رہا ، انسان ترقی کے مراحل طے کرتا ہوا چاند پر پہنچ گیا اور اب مریخ سمیت وہ کسی ایسے سیارے کی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ جہاں زندگی کے آثار موجود ہوں ۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب تجسس بہت محدود تھا (جس کی بنیادی وجہ کم علمی یا پھر محدود وسائل )یعنی ایک عام انسان وسائل کی بنیاد پر اپنی سوچ مرتب کرتا رہا ہے ۔ یہ سب باتیں سماجی میڈیا کی مرہون منت آج عام آدمی کی جانکاری میں ہیں ۔
انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا ایک میز پر جمع ہوگئی ، آپ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ اوائل میں یہ عمل دنیا کیلئے بہت حیران کن تھا ۔ ان سہولیات سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک مستفید ہوچکے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اب کسی نئی سہولت کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ایک بات یہ کہ اگر یہ لوگ سماجی میڈیا میں ہی الجھے رہتے تو پھر دنیا کو اور آسائشوں سے کون مزین کرتا ۔ محسوسات کا طبعیت پر گہرا اثر پڑتا ہے ، ہر وقت کا سب اچھا کی کیفیت بھی انسان کو بیزاری کا شکار کردیتی ہے اور ہروقت کا برا رہ کر بھی انسان اوب جاتا ہے ۔ انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے کہ وہ بدلاءو کیلئے جدوجہد کرے، اپنے اوپر لگائی گئی حدوں سے تجاوز کرے ۔ ستاروں سے آگے جو جہاں ہیں انہیں تلاش کرے ۔ ترقی کرنے والوں نے قدرت کی جانب سے دئیے گئے اشاروں کو اچھی طرح سے سمجھ لیا ۔ ہمارے معاشرے کے پرانے لوگ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پراور طے کردہ حدوں پریقین رکھتے ہیں ، یہ لوگ اصولوں کی پاسداری میں کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں ۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں ان اصول پرستوں کی موجودگی کی گواہی ثابت ہورہے ہیں ۔
قابل احترام ڈاکٹر شاہد مسعود کی مرہون منت پاکستانیوں کو ایک خوفناک اور ہیبت ناک پراسرار ڈارک ویب کے راز سے پردہ اٹھایا جسکے بارے میں آگاہی نے ہی سب کو دہلا کر رکھ دیا ( ڈارک ویب پر قابل احترام ڈاکٹرشاہد مسعودنے بھرپور طریقے سے آگاہی فراہم کی تھی جس کی انہیں سزابھی بھگتنا پڑی)، ابھی ڈارک ویب کو بھولے نہیں تھے کہ پھر ایسے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے جن کا تانا بانا ڈاکٹر صاحب نے ڈارک ویب سے جوڑا تھا ۔ پھربلیک وہیل نامی کھیل جس نے پچھلے دنوں دنیاجہان میں بچوں اور بڑوں کو خوب ڈرایا اور سہمائے رکھا ۔ معاشرے کی باگ ڈور جب تک بزرگو ں کے ہاتھو ں میں تھی تو بہت اچھی تھی پھر یہ آگئی کچھ عمر رسیدہ یا پھر وقت محنت مشقت سے خاندانوں میں اپنا اثرورسوخ بنانے والوں کے پاس جو کہ اس بات کے حمائیتی تھے کہ اختیارات بدلتی ہوئی دنیا کی نئی نسل کے حوالے کردئیے جائیں اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اختیارات سرکتے ہوئے اس نسل کے پاس آگئے جس نے مادہ پرستی میں آنکھ کھولی مختصراً یہ کہ اس نسل نے سماجی میڈیا کو تمام اختیارات دے دیئے ۔ وہ اس سمجھ سے قاصر رہے ہیں کہ درحقیت یہ اختیارات کس کو دے رہے ہیں کوئی تو اس ساری جدوجہد کے پیچھے ہے اور ایسا بھی نہیں کہ سماجی میڈیا بنانے والوں نے صرف دنیا کو گلوبل ویلیج ہی بنانا تھا ، کیا اب مقاصد سامنے نہیں آنے لگے ،زیادہ نہیں کشمیر پر چلنے والی سماجی میڈیا کی تحریکوں کو کسی نا کسی طرح سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ہمارے پاکستان میں کتنے ہی نامی گرامی شخصیات بلکہ اگر میں غلط نہیں ہوں تو صدر پاکستان کو بھی ایک سماجی میڈیا کی جانب سے تنبیہ موصول ہوئی یعنی یہ سمجھنا آسان ہوجانا چاہئے کہ سرحدوں اب وہ نہیں ہیں جہاں بھارت روزانہ گولہ باری کر رہا ہے ، سرحدیں تو ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل اور اس جیسے دوسرے آلات میں ہیں ۔ سیاست ، مذہب اور معاشرت سب کا سب سماجی ابلاغ پر چلتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ کچھ انٹرنیٹ یا سماجی میڈیا سے وابسطہ معاملات ہیں ۔
بہر کیف، تقریبا ً دو سال قبل ہم نے سماجی ابلاغ کی نامی گرامی فیس بک سے مختصر مد ت استعمال کیبعد قطع تعلق کرلیا جس پر ہ میں حلقہ احبا ب اور قلم دوستوں کو ہمارا اس دور میں فیس بک سے انتقال قدرے گراں گزرا ۔ یہ تو طے ہے کہ لاتعلقی کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں کوئی ایسے ہی کسی سے ترک تعلق نہیں کرتا، یہاں ناصرف محسوسات کوشدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑرہا تھا بلکہ ناچاہتے ہوئے ، روز ادب و لحاظ کے جنازے نکلتے دیکھنا برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور کچھ نا کچھ ایسی بات شاءع ہوجاتی تھی جس کا احساس بعد میں ہوتا کہ اس بات کو اس جگہ شاءع نہیں ہونا تھا ۔ نجی زندگی کے حوالے سے بہت سارے تحفظات رہے ۔ پھر آگیا واٹس ایپ بہت کام کی چیز ثابت ہوا ایک ہی جگہ بہت ساری سہولیات میسر آگئیں اور کسی حد تک محفوظ بھی تصور کیا جانے لگا لیکن پھر وہی ہوا بدلاءو آگیا واٹس ایپ پر بیتحاشہ گروپ بن گئے اسٹیٹس لگنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک سا ہی ہوتا چلا گیا ۔ ہم ابھی اس سوچ بچار میں ہی ہیں کہ کیا واٹس ایپ سے بھی اپنے آپ کو آزاد کروا لیا جائے اور رواءتی طرز کے فون کا استعمال شروع کردیا جائے کہ ہمارے ایک دوست کا پیغام موصول ہوا کہ وہ ہر قسم کے سماجی ابلاغ سے تعلق ختم رہے ہیں اور ان سے رابطہ عا م پیغام اور کال کے ذریعے کیا جائے ابھی یہ گتھی سلجھ نہیں پائی تھی کہ ایک اور واٹس ایپ پر اسٹسس کی صورت میں پیغام دیکھا کہ محترم تمام سماجی ابلاغ سے کنارہ کشی کر رہے ہیں لحاظہ ان سے بھی رابطہ رواءتی طرز پر کیا جائے ۔ سب معاملات کا تعلق آپکے ہاتھ میں موجود آلہ(ڈیوائس) جسے موبائل کہتے ہیں سے ہے ۔
ہ میں ان جیسے حضرات سے کچھ بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیا وجوہات ہوئیں کہ وقت کے بہترین استعمال کے سامان سے ، دنیا میں گھر بیٹھے مشہوری کہ ذراءع سے کیوں دامن چھڑا رہے ہیں ۔ جیسا کہ مذکورہ بالہ سطور میں ہم نے اپنا فیس بک سے تعلق ختم کرنے کی وجہ لکھی ہے ،ممکن ہے کہ ان صاحبان کی وجوہات بھی قدرے ہم سے مشترک ہوں بلکہ اس میں اوراضافی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں ۔ یہ چند وہ لوگ ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں بہت ممکن ہے ایسے بہت سارے لوگ ہونگے جنہیں آپ لوگ بھی جانتے ہوں یاشائد آپ خود ہی ہوں ۔ سماجی ابلاغ سے تعلق ترک کرنے کیلئے دور اندیشی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ موجودہ حالات کو سمجھنے اور واقعات کو پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ گوکہ اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اقدار پھر سے بڑوں کو منتقل کردی جائیں اور اگر کہیں ایسا ہو بھی جاتا ہے تو ان اقدار کو سوائے دفنانے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ سماجی ابلاغ سے فرار افراد کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر دیکھائی دے رہی ہے لیکن محسوس ہورہا ہے کہ بہت جلد اور بہت تیزی سے سماجی ابلاغ کا رجحان کم ہونا شروع ہونے والا ہے یا پھر محدود ابلاغ استعمال کئے جائینگے دراصل سماجی ابلاغ ایک ایسا شور پیدا کررہا ہے جس سے اب درپردہ سب ہی نجات پانا چاہتے ہیں لیکن راستہ تلاش کررہے ہیں ۔ سماجی ابلاغ دنیا کی ایک نسل کھا چکا ہے ۔ دشمن اپنے احداف حاصل کر چکا ہے لیکن ہ میں سوچنا چاہئے کہ اب بس کریں لوٹ آئیں اپنے بڑوں کے پاس جہاں سے دائمی علم ملا کرتا ہے سیکھ ملا کرتی ہے وہ آج بھی ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔