اردگان، کرد اور امریکی بے وفائی! (ساجد خان)

عالمی میڈیا پر کرد قوم ایک دفعہ پھر خبروں میں زیر بحث ہے کیونکہ ترکی نے شامی کرد علاقے میں باقاعدہ آپریشن کا اعلان کر دیا ہے جبکہ اس سلسلے میں ترک فوج کی نقل و حمل کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔ میں کرد قوم پر ایک مفصل تحریر گزشتہ برس لکھ چکا ہوں جس میں کرد قوم کی آزادی کی کوششیں اور ناکامیوں کا تذکرہ کیا تھا۔

کرد قوم مشرق وسطیٰ میں چار ممالک میں تقسیم ہے۔ ایران، عراق، ترکی اور شام میں ایک بڑی آبادی بستی ہے۔ کرد قوم کی جو سب سے بڑی خوبی یا خامی یہ ہے کہ وہ قوم پرستی کو مذہب اور وطن پرستی پر ترجیح دیتے ہیں، کرد علاقے میں آپ کا لادین ہونا مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر آپ غیر کرد ہیں تو آپ کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

کرد قوم کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ دنیا میں ایک الگ پہچان کے طور پر جانی جائے، جو ایک الگ ملک کردستان کی شکل میں ہو جس کی سرحدیں ایران تا شام تک ہوں۔ اس جدوجہد میں اس قوم نے بے انتہا قربانیاں دیں، قتل عام کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

صدام حسین کے دور حکومت میں کرد علاقوں میں متعدد مرتبہ فوجی آپریشن کئے گئے، ایران میں جن افراد کو پھانسی یا سزائیں دی جاتی ہیں اور پاکستان میں جنہیں سنی مسلمان کہہ کر ایرانی شیعہ حکومت کے مظالم ظاہر کیا جاتا ہے، ان کی اکثریت کرد افراد کی ہی ہوتی ہے جن کا اختلاف مذہب نہیں بلکہ الگ ریاست کی تحریک ہوتا ہے۔

اسی طرح ترکی میں بھی کئی عشروں سے کرد علاقوں میں بغاوت کی فضاء قائم ہے، متعدد آپریشن ہوۓ، ان کا لیڈر کئی سالوں سے جیل میں قید ہے البتہ شام میں کرد قوم کافی حد تک محفوظ تھی اور اگر آپریشن ہوۓ بھی تو وہ اس طرز کے نہیں تھے جو باقی ممالک میں کئے گئے۔ کرد قوم کی ایک اور بڑی برائی یہ ہے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشرق وسطیٰ میں یہ واحد قوم ہے جو اسرائیل سے محبت رکھتی ہے، ان کے جلسوں جلوسوں میں اسرائیل کے جھنڈے لہرانا معمول کا عمل ہے کیونکہ اسرائیل کی یہ خواہش ہے کہ کردستان وجود میں آۓ اور ظاہر ہے کہ اس ریاست کے وجود میں آنے کے بعد پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ اسرائیل کا ہی بنے گا، جس کا ذکر اکثر عالمی میڈیا میں ہو چکا ہے اور اس خواہش کی وجہ کردستان کے علاقے کی اہمیت ہے کہ اسرائیل یہاں بیٹھ کر پورے مشرق وسطیٰ پر نظر رکھ سکتا ہے۔

کرد قوم کی عادت ہے کہ وہ غلط موقع سے غلط ٹائم پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے، جیسے ہی کسی ملک کی حکومت کمزور ہوئی وہاں فوراً ہی الگ ریاست بنانے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوئیں تو کرد قوم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الگ ریاست کا اعلان کر دیا جو کہ عراقی فوج نے آپریشن کے ذریعے ناکام بنا دی۔

اس کے بعد 2001 میں عراق میں امریکی حملے کو بہترین موقع سمجھتے ہوئے کرد قوم نے نیم آزاد ریاست قائم کر لی، جس میں صدر اور وزیراعظم الگ سے ہوتے ہیں البتہ کچھ معاملات میں وہ عراق کے ساتھ تھے، اس کے ساتھ ساتھ عراقی صدر کا عہدہ بھی کرد قوم کے لئے مختص کر دیا گیا اور یہ سب کچھ امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ ہوا، کرد قوم کو اتنی آزادی پہلی بار ملی تھی لیکن شاید وہ اس سے بھی زیادہ کے خواہشمند تھے لہذا جب عراق میں داعش نے خروج کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے موصل اور دوسرے علاقے داعش کے قبضے میں آ گئے تو کرد ملیشیا نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حفاظت کے نام پر کرکوک اور دوسرے علاقوں پر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا۔

کرکوک جو کہ عرب اکثریتی علاقہ ہے اور تیل کے ذخائر سے مالامال ہے، کرد قوم کے لئے یہ علاقہ کسی نعمت سے کم نہیں تھا لہذا انہوں نے اس علاقے کا تیل عراقی حکومت سے معاہدے کے برخلاف ذاتی حیثیت سے بیچنا شروع کر دیا، جس کا واحد خریدار ترکی تھا۔

ترکی کے اپنے وطن میں کرد قوم سے اختلاف تو شدید تھے مگر عراقی کردوں کے ساتھ گہری دوستی تھی اور اس کی وجہ سستے تیل کا رشتہ تھا۔ اس دوران عراقی وزیراعظم نے متعدد مرتبہ براہ راست تیل فروخت کرنے پر کرد حکومت کی مذمت کی اور ان کے خلاف آپریشن کی دھمکی بھی دی مگر اس وقت کرد قوم کا سب سے بڑا اتحادی ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان تھا جو اس معاملے پر عراق کے خلاف تھا، وہ عراقی کردوں کی حمایت میں کھڑا رہا اور متعدد مرتبہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔

گزشتہ سال جب عراقی فوج داعش کے خلاف حتمی جنگ لڑ رہی تھی، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرد حکمرانوں نے آزاد کردستان ریاست بنانے کا اعلان کر دیا اور اس کے لئے اپنے علاقے میں ریفرنڈم کا اعلان بھی کر دیا گیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عراقی فوج آپریشن میں مصروف ہے اس لئے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اتنا اٹھا لیا جائے۔

یہ خبر چاروں ممالک کے لئے بم کی طرح ثابت ہوئی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ عراق سے شروع ہونے والی تحریک جلد ہی ان کے ممالک میں بھی پھیل جائے گی جسے روکنا مشکل ہو گا، اس خبر کا سب سے زیادہ اثر طیب اردگان پر ہوا جنہوں نے فوری طور پر کرد حکمران برزانی خاندان سے رابطہ کر کے ریفرنڈم کینسل کروانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔

اس ناکامی کے بعد طیب اردگان نے عراقی وزیراعظم سے رابطہ کر کے ملاقات کرنے کی کوشش کی مگر سابقہ تلخیوں کی وجہ سے عراقی وزیراعظم نے ملاقات سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد طیب اردگان نے ایران کا دورہ کیا، جس کا مقصد کچھ معاہدوں کے ساتھ ساتھ عراقی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا بھی تھا، ایران سے واپسی پر طیب اردگان نے انکشاف کیا کہ ایران، عراق اور ترکی، عراقی کردستان میں مشترکہ فوجی آپریشن کریں گے لیکن ایران اور عراق نے ایسے کسی منصوبے کی تردید کر دی۔

ترکی نے کرد علاقے کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی جبکہ فضائی حدود استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ کردستان میں ریفرنڈم ہوتا ہے اور نوے فیصد سے زائد افراد آزاد ریاست کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، جس کا جشن چاروں ممالک میں مقیم کرد قوم نے منایا۔ جس کے بعد عراقی وزیراعظم نے فوج کو کردستان کی طرف مارچ کرنے کا حکم دے دیا، اس صورتحال پر عالمی مبصرین کا خیال تھا کہ ایک خوفناک جنگ ہونے جا رہی ہے جس کے نتائج نہایت بھیانک ہوں گے۔ اس وقت پوری دنیا میں صرف دو ممالک ایسے تھے جو براہ راست کردستان ریاست کی حمایت کرتے نظر آئے، اسرائیل اور سعودی عرب۔

اسرائیل کے مفادات واضح تھے جبکہ سعودی عرب اس صورتحال میں ایک تیر سے چار شکار کرنا چاہ رہا تھا۔ ایران کے ساتھ روایتی دشمنی تھی جبکہ شام سے ایرانی بلاک میں ہونے پر اختلافات تھے، عراق کا ایران کی جانب جھکاؤ بھی پسند نہیں تھا جبکہ مصر میں محمد مرسی کے خلاف مارشل لاء کو سعودی حمایت پر ترکی بھی سعودی عرب سے سخت نالاں تھا لیکن سعودی عرب کی اس چال کے برعکس چاروں ممالک بہت سے معاملات پر شدید اختلافات رکھنے کے باوجود اس مسئلہ پر یکجا ہو گئے۔

کرد رہنماؤں کو یقین کی حد تک غلط فہمی تھی کہ امریکہ جو ان کا اتحادی ہے وہ مدد کے لئے اپنی افواج ضرور بھیجے گا یا عراق کو آپریشن سے روک لے گا مگر عراقی فوج جب کرکوک کی سرحد پر پہنچی تو کرد رہنماؤں کے امریکہ سے رابطے منقطع ہو چکے تھے کیونکہ امریکہ اس معاملے پر عراق اور ترکی کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا لہذا امریکہ نے کرد قوم کو ان کے حال پر چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی، اس کے باوجود کرد ملیشیا پرعزم تھی۔

عراقی فوج نے الٹم میٹم دیا کہ ہم کل مخصوص وقت پر کرکوک میں داخل ہوں گے اور مزاحمت کرنے والوں کو نیست و نابود کر دیں گے جبکہ کرد ملیشیا نے بھی اپنی تیاری مکمل کر لی تھی۔ جیسے ہی وقت قریب آیا کرد ملیشیا تقسیم ہوتی نظر آئی، آدھے مورچوں پر قائم رہے جبکہ بقیہ نے مورچے چھوڑ کر واپسی کی راہ لی اور یوں عراقی فوج معمولی سی مزاحمت کے بعد نہایت آسانی کے ساتھ کرکوک میں داخل ہو گئی اور جن عرب علاقوں پر کرد قوم نے گزشتہ تیس سالوں میں قبضہ کر کے ریاست بنائی تھی، وہ بھی واپس چلے گئے، یہاں تک کہ عراقی فوج کردستان سرحد تک پہنچ گئی اور یہیں انہیں رک جانے کا حکم مل گیا۔

کردستان کے لئے بنا کرکوک شہر کے آزادی بے معنی تھی کیونکہ اسی شہر کے بل بوتے پر آزادی کا خواب دیکھا تھا۔ حالات میں اچانک سے تبدیلی جہاں عالمی میڈیا کے لئے حیران کن تھے وہیں کرد قوم بھی سکتے میں آ گئی اور سوشل میڈیا پر کرد فوجیوں اور شہریوں کی زار و قطار رونے اور اپنی ہی ملیشیا کو برا بھلا کہنے کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں کیونکہ کرد قوم اپنے خواب کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔

یہاں ایران کی عالمی سیاست کا جادو چل چکا تھا، قاسم سلیمانی نے آپریشن سے چند گھنٹے پہلے ہی راتوں رات کرد قوم کے دوسرے بڑے گروپ طالبانی خاندان سے ملاقات کر کے انہیں لالچ اور دھمکی کا ملتا جلتا پیغام دیا تھا، جسے منظور کر لیا اور اسی معاہدے کے تحت عین وقت پر طالبانی خاندان کی ملیشیا کو مورچوں سے واپس بلا گیا، جس کے بعد برزانی خاندان کی ملیشیا میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ عراقی فوج کا مقابلہ کر سکے۔ کرد قوم کے پاس اب عراق سے مذاکرات کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچی تھی مگر عراقی وزیراعظم اب مذاکرات کے لئے تیار نہیں تھا۔ دوسری طرف ترکی نے بھی سرحد کھولنے کی سخت شرط رکھی کہ اس کا انتظام کرد ملیشیا کے بجائے عراقی فوج سنبھالے گی تو سرحدی راہداری کھول دی جائے گی ورنہ سرحد بند رہے گی، ان حالات میں کردستان مکمل طور پر محصور ہو کر رہ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مجبور ہو کر کرد حکمرانوں کو سب مطالبات تسلیم کرنے پڑے اور اس سبکی کی وجہ سے برزانی نے عہدے سے استعفیٰ دے کر اقتدار اپنے بھتیجے کے حوالے کرنا پڑا۔ امریکہ کی کرد قوم سے یہ پہلی بڑی بے وفائی تھی۔

دوسری طرف شام میں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو شامی کردوں نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیم آزاد ریاست قائم کر لی اور اس مرتبہ بھی انہیں امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی۔ شامی حکومت نے متعدد مرتبہ کرد علاقوں میں آپریشن کرنے کی کوشش کی مگر امریکہ نے اس علاقے میں اپنا فوجی اڈہ قائم کر لیا تھا لہذا ہر کوشش ناکام بنا دی گئی، جس پر شامی حکومت نے بقیہ علاقوں کو باغیوں سے آزاد کروانے پر مبذول کر دی۔

ترکی کو ایک دفعہ پھر خطرہ محسوس ہوا کیونکہ شام کے بعد ترکی کی کرد قوم بھی کسی وقت آزاد ریاست کا اعلان کر سکتی تھی، لہذا گزشتہ چند سالوں سے ترکی کی امریکہ کے ساتھ اس بات پر اختلاف چلا آ رہا تھا کہ امریکہ شامی کردوں کی حمایت بند کر دے لیکن امریکہ کے اس میں مفادات پنہاں تھے، اس نے کرد ملیشیا کے ذریعے ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا جو شام میں تیل سے مالامال تھے اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کی اہم وجہ ہی تیل کے ذخائر تھے۔

ترکی کئی سال کشمکش میں رہنے کے بعد حال ہی میں شامی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کرنے جا رہا ہے جس کے ساتھ ہی کرد علاقوں سے امریکی فوج واپس جانے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں یعنی ایک دفعہ پھر امریکہ نے کرد قوم کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر کے ان سے بے وفائی کرتا نظر آ رہا ہے۔

اب اگر امریکہ نے کرد قوم کو ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو ان کے پاس محدود راستے رہ جائیں گے، ترکی کے ساتھ جنگ کرے جو کہ نہایت مشکل اور خطرناک فیصلہ ہو گا یا دوبارہ شام کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے روس اور شامی فوج سے مدد طلب کرے، دونوں صورتوں میں ہی کرد قوم کی آزاد ریاست کا خواب ایک دفعہ پھر چکنا چور ہو جائے گا۔

دوسری طرف ان سب حالات سے طیب اردگان سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، 1994 میں استنبول کے میئر سے سیاست کا آغاز کرنے والی شخصیت نے نے ترکی کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طیب اردگان نے ترکی کو ایک بڑی معیشت بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور دہائیوں سے جاری فوجی آمریت اور مارشل لاء جیسے اقدامات کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ طیب اردگان خود بھی آمرانہ سوچ سے کام لینے لگے۔ ان کے دور اقتدار میں اپوزیشن کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جاتا رہا یہاں تک کہ ترکی میں توہین مذہب سے زیادہ توہین اردگان کو زیادہ سنجیدہ لیا جانے لگا، درجنوں سیاست دان، صحافی اور دوسرے شہری اردگان کی توہین پر جیلوں میں قید کئے گئے مگر چند ماہ قبل ترکی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات نے طیب اردگان کی سیاست کے لئے حقیقی معنوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، جس میں استنبول اور انقرہ کے علاوہ بہت سے اہم شہروں میں طیب اردگان کی جماعت کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ ان انتخابات نے چند دوسری سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے ساتھ حصہ لیا تھا، جس پر طیب اردگان نے استنبول کے انتخابات دوبارہ کروائے مگر اس کے بعد بھی حکمران جماعت کو ہزاروں ووٹوں سے شکست ہوئی۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طیب اردگان کی مقبولیت کافی حد تک کم ہو چکی ہے، جس کا احساس طیب اردگان اور اس کی جماعت کو بھی ہو چکا ہے، اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لئے اردگان کو کسی بڑے ایشو کی تلاش تھی، جس میں ترک قوم کی حب الوطنی کو استعمال کیا جا سکے۔

اب شام میں کرد قوم کے خلاف آپریشن کو طیب اردگان اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ شامی حکومت اور روس، یہاں تک کہ امریکہ کبھی بھی نہیں چاہئیں گے کہ ترکی اس فوجی آپریشن میں کامیاب ہو جائے لہذا اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ترکی کو اس جنگ میں ویسے ہی مصروف کر دیا جائے جیسے یمن میں سعودی عرب کو گزشتہ پانچ سالوں سے مصروف رکھا جا چکا ہے اور ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے کہ ترکی کو شامی علاقوں میں فضائی حملے کرنے کی اجازت نہیں ہے اور کرد قوم ایک جنگجو اور لڑاکا طبیعت رکھنے والی قوم ہے جو گوریلا جنگ میں مہارت رکھتی ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں میں داعش جیسی خطرناک تنظیم کے ساتھ جنگ کر کے کافی تجربہ بھی حاصل کر چکی ہے اور گوریلا جنگ بنا فضائیہ کے جیتنا انتہائی مشکل عمل ہے جس میں انسانی نقصانات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ موجودہ حالات میں طیب اردگان کی سیاست کے لئے کوئی بھی نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس مہم جوئی کے نتائج کیا ہوں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس سے امریکہ کی بے وفائی کی عادت ضرور واضح ہو گئی ہے جو مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے لئے سبق ضرور ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں