16

پاکستانی بچے اور لوطی معاشرہ (ساجد خان)

آج معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے دو بڑے واقعات کی خبریں دیکھیں تو ایک مرتبہ پھر دل چاہا کہ اس موضوع پر کچھ اظہار کروں۔ پنجاب کے صوبائی حکومت لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں ایک مدرسے میں ڈیڑھ سو بچوں کے ساتھ چھ مولویوں کی ایک عرصہ سے جنسی زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ دین کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار اتنے مذہبی تھے کہ جنسی زیادتی کے بعد بچوں سے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کریں گے۔

میرے خیال سے، جس طرح جنسی زیادتی انتہائی افسوسناک ہے، اسی طرح اس غلیظ عمل کو پوشیدہ رکھنے کے لئے قرآن پاک کا حلف بھی اتنا ہی افسوسناک ہے کہ وہ دین کے ٹھیکیدار اللہ کی کتاب کا استعمال بچوں کی زندگی سنوارنے کے بجائے اپنے گناہ چھپانے کے لئے استعمال کرتے تھے بلکہ عام مسلمان کی اس مقدس کتاب سے عقیدت کا بھی غلط فائدہ اٹھاتے رہے۔

مدارس میں اس طرح کے واقعات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما معمولی باتوں میں تو توہین نکال کر مظاہرے شروع کر دیتے ہیں۔ سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے مذہب کو استعمال کر کے سڑکوں پر مظاہرے کرتے تو نظر آتے ہیں مگر ایسے واقعات پر مکمل خاموشی اختیار کر لیتے ہیں گویا اس کا مذہب کی توہین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

آخر ہمارا مذہبی طبقہ اس معاملے کو سنجیدہ کیوں نہیں لیتا؟

بات بات پر قتل اور توہین کے فتوے جاری کرنے والے آخر اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف فتویٰ کیوں نہیں دیتے بلکہ بعض معاملات میں الٹا مجرموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ مدارس میں یہ عمل باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، اسی لئے شاید یہ وباء کم ہونے کے بجائے مزید پھیل رہی ہے۔

اس طرح کا دوسرا واقعہ خیر پور میرس کے علاقے ٹھیری میرواہ میں پیش آیا۔ جہاں پینسٹھ سالہ ریٹائرڈ استاد سارنگ شر جو کہ اپنے علاقے کی معزز شخصیت بھی سمجھی جاتی ہے۔ وہ استاد جسے نبی کریمؐ نے روحانی باپ کا درجہ دے کر اعلیٰ مقام عطا فرمایا، وہی روحانی باپ اپنے بچوں کی عصمت دری کرتا رہا۔ سارنگ شر گزشتہ کئی سالوں سے ٹیوشن سینٹر چلا رہا تھا مگر اس کے ساتھ بچوں کے ساتھ نا صرف زیادتی کرتا تھا بلکہ اس کی ویڈیو بنا کر محفوظ بھی کر لیا کرتا تھا۔
یہ معاملہ اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے کیونکہ سارنگ شر اس دوران اپنی موجودگی میں بچوں کی آپس میں بھی لواطت کرواتا تھا بلکہ اس کی بھی ویڈیوز بناتا رہا۔

یہ دونوں انتہائی غیر معمولی واقعات ہیں مگر اس کے باوجود نا ہی کسی حکمران نے نوٹس لیا اور نا ہی کسی مذہبی رہنما نے شرعی فتویٰ جاری کیا۔ نا ہی اس طرح کے افراد لاپتہ ہوتے ہیں اور نا ہی عدالتوں کو ازخود نوٹس لینا یاد آتا ہے۔

ہم اپنی نئی نسل کو کیسا ماحول دے کر جائیں گے جہاں مسجد کے پیش امام، مدرسے کے قاری اور اسکول کے استاد انہیں نوچتے رہیں گے۔

اگر ہم اپنے اجتماعی رویہ پر توجہ دیں تو ہر شخص کے اندر قاری یا سارنگ شر چھپا بیٹھا ہوا نظر آتا ہے بس فرق یہ ہے کہ کوئی بےنقاب ہو جاتا ہے یا کسی کو مواقع میسر ہو جاتے ہیں تو بدنام ہو جاتے ہیں اور کچھ افراد کے گناہوں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔

کل سوشل میڈیا پر ایک پیج نے خبر دی کہ ٹک ٹاک کی ایک مشہور اسٹار کو اس کا دوست بلیک میل کر رہا ہے۔ جس پر ہر شخص اس ملزم کو برا بھلا کہتا نظر آ رہا تھا کہ ایک نوجوان نے کمنٹ کیا کہ اس لڑکی کی برہنہ تصاویر میرے پاس موجود ہیں۔ بس یہ کہنا تھا کہ سب اس کی منتیں کرتے نظر آئے کہ انہیں بھی تصاویر یا ویڈیوز دی جائیں۔

اب مدرسے کے قاریوں، سارنگ شر اور ہم میں کیا فرق رہ گیا کہ وہ اس طرح کی قبیح حرکات کرتے ہیں اور ویڈیوز بنا کر ہمارے لئے مفت کی تفریح فراہم کرتے ہیں۔

ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ ہمارے اکابرین کو اس تباہی کا احساس ہی نہیں ہے اور نا ہی وہ اس جرم کو روکنے کے لئے سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔

فقط اسمبلیوں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر مذمتی قراردادیں منظور کر کے اپنی ذمہ داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں