پیچھلے قسط میں ہم نے یہ گفتگو کی تھی کہ جب روح کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے تو اس کو ” نفس ” کہتے ہیں۔
قرآن مجید نے بار بار نفس کے بارے میں انسان کو متنبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ” اے ایمان والو! تم اپنے نفس کے خود زمہ دار ہو۔ اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔ سورة مائدہ آیت 105۔
حدیث نبوی ( ص) ہے کہ ” جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کی”
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نفس کا ذکر 11 قسمیں کھا کر کیا ہے۔ ” نفس کی قسم اور اس کو استوار کرنے والے کی قسم ” سورة الشمس۔
نفس چونکہ ایک مجرد شئے ہے۔ اس لئے انسانی آنکھ اسکو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے نسان اس کے ہونے کا بھی انکار کرتا ہے۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اسکے ہونے کا تو ہمیشہ سے انکار ہی کرتا آرہا ہے۔ اس کائنات میں ایسی بہت سی حقیقتیں اور قوتیں کارفرما ہیں جو اپنا وجود رکھتی ہیں مگر انسان ابھی تک ان کو درک کرنے سے قاصر رہا ہے۔
کائنات کی ہر تخلیق اپنے خالق کا پتا دیتی ہے۔ آثار کے ذریعے سے موثر تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ہر علت کا کوئی نہ کوئی معلول ہوتا ہے۔ بس نفس کی معرفت بھی آثار ہی کے ذریعے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
انسانی عقل خود اپنے نفس کی گوہی دیتا ہے۔ انسانی جسم کے حرکات و سکنات اور نطق و تکلم گواہ ہیں کہ کوئی ایسی قوت وجود رکھتی ہے جو اس جسم کے نظام کو چلا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پورا جسم اس کے ارادے کا پابند ہے۔ کیونکہ اگر روح اور نفس کا وجود نہ ہو تو یہ جسم خاکی محض ایک جامد ہستی ہوتی۔
خدا نے نفس کے اندر اپنے ارادے کی نشانیاں ڈالی ہیں۔ انسان اپنے جسم کے کسی جز کو بول کر نہیں کہتا کہ “فلاں کام کرو” ۔ یہ سارے اجزاء انسان کے ارادے ہی سے خود کار طور پر کام کر رہے ہیں۔ جس طرح انسانی جسم کے کسی بھی حصے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو نفس کو فوری طور پر اسکا ادراک ہوجاتا ہے۔
بلکل اسی طرح اللہ تعالی کا ارادہ بھی ہے۔ اللہ تعالی جب بھی کسی کام کے ہونے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات اسی طرح ہر چیز سے با خبر اور آگاہ ہوتا ہے جس طرح انسان اپنے جسم کے تمام اعضاء سے باخبر اور آگاہ ہوتا ہے۔مگر قرآن مجید کے مطابق انسان کو بہت تھوڑا ہی علم دیا گیا ہے۔
انسان جب خواب دیکھتا ہے تو وہ اپنے ارادے سے ہی ایک نئی دنیا تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بڑے بڑے پہاڑوں کو تخلیق کرتا ہے۔ سمندروں ، انسانوں اور جانوروں کو تخلیق کرتا ہے۔ عالم خواب میں انسان جو کچھ بھی دیکھتا ہے۔ وہ کوئی خیال اور سوچ نہیں ہوتا بلکہ وہ سب ایک حقیقت کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ انسانی روح کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے تاکہ انسان کو اللہ تعالی کے ” کون فیکون ” ہونے یقین کامل حاصل ہوسکے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ انسان جو منظر عالم خواب میں دیکھتا ہے وہ مادی وجود میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ مگر اللہ تعالی جس کائنات کا ارادہ فرماتا ہے وہ ایک مادی وجود کے ساتھ حاضر ہو جاتا ہے۔
یہ سب اللہ تعالی کی ہستی کی نشانیاں ہیں جو بشمول انسانی جسم کے پورے کائنات میں موجود ہیں۔ نفس انسانی کا ذکر آگے مزید تفصیل کے ساتھ آئے گا۔
جاری ہے۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔