موجودہ حکومت نے ایک سو ساٹھ ارب کا کراچی پیکج دیا جو کراچی کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے ۔ سب سے پہلے ہم کچھ بات کراچی کی کچھ جاگرافی پہ کریں کراچی کی آبادی تقریباً دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے جس میں چھ اضلاع ایک کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور ایک ضلع کونسل کراچی ہے سیدھے لفظوں میں دیہی و شہری بنیادوں پہ انتظامی طور پہ تقسیم ہے۔ ایک طرف اک بہت بڑی ساحلی لگتی ہے تو دوسری طرف ٹھٹہ و جامشورو کی بارڈر اسی طرح ایک طرف کھیر تھر پہاڑی سلسلہ و حب ندی
کراچی کا تقریباً 60% فیصد رقبہ دیہی علاقوں پہ مشتمل ہے۔ کراچی کے بیشتر شہری و دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی میں پانی نایاب ہے سیکڑوں گاؤں میں گیس نایاب ہے۔ کئی گاؤں میں بجلی نہیں ۔
شہری آبادیوں میں بھی ٹوٹی پھوٹی سیوریج و کچرہ سے بڑی سڑکیں اکثریت کے ساتھ ہمیں کراچی کا حال دکھاتی ہیں ۔ اسی طرح 2 کروڑ کے شہر میں 3 بڑے ہسپتال ہیں اور اسکولوں کالجز کا معیار بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ تھی ایک چھوٹی سے کہانی ۔
کراچی سندھ کا دارالخلافہ اور پاکستان کا معاشی حب ہے۔ مگر کئی سالوں سے نظر انداز ہے یعنی وفاقی و صوبائی حکومتوں کا خاطر خواہ کام نہیں ہاں گزشتہ دو سالوں میں کچھ کام ضرور ہوا جس میں سڑکیں بنیں انڈر پاس بنے۔ 2005 مصطفی کمال کے سٹی ناظم بننے کے بعد کراچی کے شہری علاقوں میں بہت کام ہوا پلیں سڑکیں پارک انڈر پاس بنے اس وقت کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بڑے بڑے پیکج دیئے مگر اس بعد 5 سال خاموشی چھائی رہی۔ بلدیاتی سسٹم لپیٹ لیا گیا اور فنڈز جاری نہیں ہوسکے۔ اس کے بعد آنے والی اگلی حکومت نے تین منصوبے دیئے جس میں ایک مکمل دو میں صوبائی حکومت کے ساتھ 60 /40 والا فارمولہ استعمال کیا گیا جو دونوں ابھی تک نامکمل ہیں یعنی گرین لائن اور کے فور ۔ پھر بعد میں سو ارب کے پیکج کی بات ہوئی مگر شاید وہ بات ہی رہی۔
کراچی کئی مسائل میں گہرا ہوا ہے جس میں سب سے بڑے پانی ، ٹرانسپورٹ، سیوریج، کچی آبادیوں گوٹھوں میں۔ بنیادی سہولیات ، بجلی انوائرمنٹ اور صحت جیسے مسائل شامل ہیں۔
اب تھوڑی بات گرین لائن کی پوجائے غالباً تین سال مکمل ہونے کو ہیں شاید اس سے بھی زیادہ مگر اب تک مکمل نہیں ہوئی یہ سرجانی سے مزار قائد تک چلنی تھی۔ آج بھی شہری بسوں میں لٹک لٹک کے آتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف گرین لائن اس کا حل ہے جواب، نہیں کراچی میں کم از کم ایسے دس منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ کراچی کا قدیم منصوبہ سرکیولر ریلوے جس کی کئی بار فزیبلٹی بنی کئی بار سروے ہوئے مگر اب بھی اک امید ہی بنا ہوا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ایک سو ساٹھ ارب کچھ بھی نہیں مگر ایک امید ضرور ہے اس پیکج میں کراچی کے لئے کچھ ٹرانسپورٹ منصوبے ہیں کچھ سیوریج اور کچھ پانی کے چلیں کچھ ہونے کی امید تو ہے اور ایک بات خوش آئندہ بھی ہے افسوسناک وہ یہ کہ یہ کام ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کو دیا جائے گا خوش آئندہ اس لئے کے یہ کام جلد مکمل ہونے کے امکانات ہیں اور سیاسی مداخلت کے چانسس ہم ہیں ۔ افسوسناک اس لئے کہ یہ کام منتخب نمائندوں کے بجائے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کو دیا جارہا ہے ۔ خیر کراچی کے شہریوں کو کچھ رلیف ملنے کا امکان ضرور ہے۔
محترم وزیر اعظم آپ امید ہیں اس وطن کی آپ سے التماس سے کہ کراچی کے شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کو بھی توجہ دیں یہاں ساحلی پٹی اور پہاڑی علاقوں میں بسنے والے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں پانی بجلی گیس تعلیم صحت مواصلات کئی علاقوں میں نایاب ہیں کنڈ جھنگ موئیدان کے لئے بھی رلیف پیکج کا اعلان کریں کراچی کے ساحلوں، کھیر تھر پارکر ، موئیدان ، حب ندی، موکی ، قائد اعظم ریزیڈنسی ملیر سمیت کئی علاقے موجود ہیں ان کو ڈولپ کرکے سیاحت کے لئے کھولیں تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملے اور ملکی معشیت پروان چڑھے۔ کراچی کو مزید ڈولپ کرکے دنیا کے خوبصورت شہروں کی صف میں کھڑا کریں۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔