پاکستانی قوم کو یہ نعرہ “احتساب سب کا” سنتے سنتے کئ دہائیاں گزر گئیں۔
سب سیاسی جماعتیں احتساب کی نا صرف حمایت کرتی نظر آتی ہیں بلکہ جلسوں، تقریروں میں خود کو احتساب کے لئے پیش بھی کرتے رہتے ہیں۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہبازشریف تو ہر تقریر میں انگلی ہلا ہلا کر اعلان کیا کرتے تھے کہ اگر مجھ پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
آصف علی زرداری صاحب کے پیٹ سے لوٹا ہوا پیسہ نکالنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔
نوازشریف صاحب بھی ہمیشہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے رہتے تھے۔
پیپلزپارٹی نے بھی کبھی احتساب کی مخالفت نہیں کی اور ہمیشہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے نظر آۓ۔
پاکستان تحریک انصاف کی اگر بات کریں تو ان کی مقبولیت کی وجہ ہی بلا امتیاز احتساب کا نعرہ تھا۔ یہ سب جماعتیں احتساب کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ احتساب ہونا تو چاہئے مگر ہمارا نہیں بلکہ ہمارے مخالفین کا۔
پاکستان کے تحقیقاتی ادارے نیب نے جب شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تو شریف خاندان کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز نے چیئرمین نیب پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔ اس وقت کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نیب کی حمایت کرتی نظر آئی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات شروع ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔
یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور پنجاب کے سینئیر وزیر علیم خان گرفتار ہوئے تو وفاقی وزراء بھی میڈیا پر بیٹھ کر نیب پر تنقید کرتے نظر آۓ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس وقت نیب پر سخت تنقید کی جب نیب نے خیبر پختونخواہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈاکٹر عبدالصمد کو گرفتار کیا۔
جب کوئی مخالف گرفتار ہو تو نیب ایک آزاد ادارہ تصور کیا جاتا ہے لیکن جوں ہی کوئی اپنا گرفتار ہوتا ہے تو اسی آزاد ادارے پر فوراً ہی جانبداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ آج شاید ہی کوئی جماعت ہو گی جو نیب کی حمایت کرتی نظر آئے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستان میں کرپشن ایک موذی وباء کی طرح ہر ادارے میں پھیل چکی ہے اور اربوں روپے نہیں بلکہ کھربوں روپے چند دہائیوں میں لوٹے گۓ ہیں۔
یہ پیسہ لوٹا تو لوٹا کس نے۔ اب ایک عام شہری تو یہ سب کرپشن کرنے سے رہا کہ جس کے پاس نا کبھی عہدہ رہا اور نا ہی اس کے پاس کچھ اختیارات تھے کہ جن کا وہ ناجائز استعمال کر کے کرپشن کرتا۔
ظاہر ہے کہ اس کرپشن کے بارے میں ان سے ہی پوچھ گچھ کی جائے گی جن کے پاس اختیارات تھے لیکن جب بھی ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت میں یہ کرپشن کیسے ہوئی اور کس نے کی تو فوراً ہی نیب متنازعہ ادارہ بن جاتا ہے۔
اگر حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں نے کرپشن نہیں کی تو یہ سب پیسہ کیسے غائب ہو گیا ؟
احتساب کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ آج اگر ہم ہر معاملے میں مغرب کی مثال دیتے ہیں تو اس مہذب معاشرے کی ایک وجہ بھی احتساب ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب کے حکمرانوں کو کرپشن کرنے کا دل نہیں کرتا ہو گا یا ان کے پاس مواقع نہیں ہوتے بلکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی غلط حرکت پر ان کا محاسبہ کیا جائے گا۔ اس احتساب کی بدولت ہی مغرب آج ترقی یافتہ کہلاتا ہے جبکہ ہم تھرڈ ورلڈ کا معاشرہ کہلاتے ہیں۔
پاکستان میں اگر احتساب کی روایت شروع ہو رہی ہے تو اسے جاری رہنا چاہئے کیونکہ یہی عمل ہماری بقاء کے لئے نہایت ضروری ہے اور عوام کا بھی اس نظام پر اعتماد بڑھے گا کہ ان کے ٹیکس کی مد میں ادا کیا گیا پیسہ کسی واحد فرد یا جماعت کی عیاشیوں پر ضائع نہیں کیا جا سکے گا۔
قوم کے پیسے کی حفاظت کے لئے جہاں احتساب کا عمل نہایت ضروری ہے وہیں نیب کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ملزم کے خلاف جب تحقیقات کا آغاز کرتا ہے تو پھر گرفتاری اس وقت عمل میں لائی جائے جب اس کے جرم ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت موجود ہوں کیونکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کسی بھی ملزم کو گرفتار کرتے وقت ایسے ظاہر کیا جاتا ہے کہ گویا یہی وہ واحد شخص ہے،جس نے پورے پاکستان کو لوٹا لیکن چند ہفتوں کے اندر ہی وہ ضمانت پر رہا ہو کر پہلے سے زیادہ پراعتماد نظر آنے لگ جاتا ہے اور اس کے بعد نیب کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے کہ جیسے انہوں نے کسی دباؤ یا کسی ڈیل کے تحت ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے سے گریز کیا ہے کیونکہ احتساب تب ہی جاری رہ سکتا ہے جب اس میں شفافیت اور غیر جانبداری کا عنصر نمایاں طور پر نظر آۓ ورنہ انتقامی کارروائی شمار ہوتی ہے۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔