پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جس بصارت کی بنیاد پر اقتدار میں آئی تھی بظاہر اس کی سمتیں تبدیل ہوتی محسوس کی جارہی ہیں کیونکہ جس فصل کا بیج انہوں نے بونا ہے اس کی بوائی کیلئے سخت محنت اور مشقت کی ضرورت ہے اور یکسوئی سب سے اہم عمل ہے ۔دور حاضر میں حکمتِ عملی زمینی حقائق کی بنیاد پر مرتب دینی چاہئے ورنہ انتہائی نا مناسب حالات پیدا ہوجاتے ہیں اور آپ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑسکتی ہے۔ ایک بہت موٹی سی مثال لے لیجئے ؛ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں کی جانے والی فوج کشی کو لے لیں ، امریکہ کا خیال تھا کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ بس کچھ دنوں میں سب کچھ اپنے قبضے میں کرلے گالیکن کیا کچھ ہوچکا ہے اسکی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے ۔ آج امریکہ ، افغانستان اور عراق سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہا ہے ساری حکمت عملیاں بیکار ثابت ہوچکی ہیں ظاہر ہے کہ یہ ساری حکمت عملیاں زمینی حقائق سے مختلف تھیں۔
پاکستان میں قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی پہلی حکومت کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے مثالی طرز پر پالیسیاں مرتب دیں اور ان پر عمل پیرا ہوئے پھر کیا تھا کہ جیسے ملک میں بھوچال آگیا۔ بھاگو بچاؤ کی سی کیفیت ہرطرف دیکھائی دینے لگی ۔ جس کی وجہ سے حالیہ بد عنوانیوں کا تسلسل تو ٹہرا ہوا ہے لیکن انصاف اپنی حتمی شکل میں ابھی بھی ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا ۔لوگوں کی ایک بہت قلیل تعداد کا یہ سمجھنا ہے کہ ہم نے تحریک انصاف کو آٹا تیل سستا کرنے کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ ووٹ اسلئے دئیے ہیں کہ وہ چوروں اور لٹیروں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت نکلوائیں اور سزائیں دلوائیں تاکہ آنے والی نسلیں ایسے ناپاک عزائم لے کر ملک میں حکومت کا حصہ بننے کا خواب نا دیکھے اور دوسرا یہ کہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جا کھڑا ہو۔اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے اصولی طور پر تو ملک میں ایمرجنسی لگا کر تمام بدعنوانوں کیخلاف بلا امتیاز کاروائی کرنی چاہئے تھی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے رکھ دینا چاہئے تھا، ساری کاروائی کیمروں کے سامنے کرنی چاہئے تھی۔ لیکن جمہوریت کی آڑ ے آگئی اور جمہوریت کی آڑلے کر جمہوریت سے نابلد سیاست دان ایک بار پھر کسی حد تک راہ فرار تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ سمجھنے والوں کو تو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بدعنوانوں کی پناہ گاہ ہے ،اگر یہ بات گراں گزری ہو تو خود ہی اپنی اشرافیاء پر غور کرلیجئے کس کس کو جمہوریت کی پڑی ہے ۔
حکومت وقت کی حکمت عملیوں میں ایک بلدیاتی نظام کی مکمل طور پر بحالی بھی تھا جسکی ملک میں سب سے زیادہ ضرورت کراچی کو رہی ہے ۔ کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہونے کیساتھ ساتھ پورے پاکستان سے روزگار کیلئے آنے والوں کا بھی مرکزی شہر ہے ۔ کراچی کی آبادی میں گزشتہ دہائی میں دوگنا اضافہ ہوا ، یہ اضافہ پیدائش کی شرح بڑھنے سے نہیں بلکہ اندرونِ ملک ہجرت کرنے والوں کی وجہ سے ہواہے ۔ لوگ آتے گئے اور جسے جہاں جیسے جگہ ملتی گئی بستے چلے گئے ، پہلے خود آئے پھر اپنے خاندان کو لے آئے۔ آبادی کی اتنی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ایک طرف تو پانی کی شدید قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی، دوسری طرف ٹریفک کا مسلۂ کسی آژدھے کی طرح ہوتا چلا جارہا ہے جسکا سبب رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی بھرمار کیساتھ غیر لائنس شدہ چلانے والے ہیں۔ جوکہ ناصرف شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا سبب بنے ہوئے ہیں بلکہ سرکاری خزانے پر بھی بوجھ بنتے جا رہے ہیں(نا لائسنس بناتے ہیں اور نا ٹیکس دیتے ہیں)۔ پھر آبادی کے لحاظ سے نکاسی آب کا سگین مسلۂ کھڑا ہے ، آپ شہر کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کہیں آپ کو گٹر ابلتے نا ملیں راستے میں گندے پانی کے ایسے ایسے جوہڑ دیکھائی دیتے ہیں جیسے شہر کے اندرونی نہیں بلکہ نواحی علاقے میں ہوں ۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کی گلیاں بھی ایسی صاف ستھری ہوتی تھیں کے کیا مثال دی جائے لیکن آج تو جہاں کبھی سڑکیں ہوا کرتی تھیں وہاں گڑہوں سے بھرے راستے ہیں۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے شہر کی مزید توسیع سے روک دیا ہے ۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی بستیاں بساؤ۔ اب واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ چھوٹی بستیوں میں تمام امور بہت احسن طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں اور کسی قسم کی شرانگیزی ، بدعنوانی اور اخلاقیات کی خلاف ورزی پر بھی فوری کاروائی ممکن ہوسکتی ہے ، اور انصاف کرنا انتہائی آسان ثابت ہوسکتا ہے ۔ معلوم نہیں مصطفی زیدی صاحب ، جن کا تعلق بھی کراچی سے تھا یہ شعر کراچی کی آج کی صورتحال پر ہی لکھا تھا اور ہر شہری کی طرف سے لکھا تھا؛
انہیں پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
ملک میں اس وقت تک ترقی دیکھائی نہیں دے گی جب تک شہر شہر گاؤں گاؤں بلا تفریق کام نہیں ہوگا، سیاسی تقسیم ختم نہیں ہوگی ،ہر شہری کو مساوی حقوق نہیں دئیے جائینگے ، خوف و ہراس سے نجات نہیں دلائی جائے گی اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی جیسے ناسور سے جان نہیں چھڑائی جائے گی۔ آج پانی کے بحران پر ساری دنیا سر جوڑ کر بیٹھی ہے اور ہم بھی تاریخ میں پہلی دفع ڈیم بنانے کیلئے اتنے سنجیدہ دیکھائی دئے ہیں کہ لگ بھگ چندے کی مد میں دس ارب سے زائد رقم جمع کر ڈالی ہے (سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا شکریہ )لیکن کراچی میں جہاں کہیں پانی آتا ہے تو ایسے آتا ہے کہ جیسے سیلاب آگیا ہو، یعنی بوسیدہ لائینیں جگہ جگہ سے رس رہی ہیں پانی سڑکوں پر پھیل جاتا ہے ایک طرف تو پانی کے ضائع ہونے کا دکھ ہوتا ہے تو دوسری طرف گندگی کیساتھ ساتھ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ عمل کئی سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں دیکھا۔ اگر ان لائنوں کی مرمت ہوجائے اور یہ رساؤ نا ہو تو ان علاقوں میں بھی پانی پہنچ سکتا ہے جہاں اس رساؤ کی وجہ سے نہیں پہنچ پا رہا۔ ہم یہ کب سمجھیں گے کہ کسی مسلئے کی نوعیت کو سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پالیں ۔ اب اگر یہ پانی اس طرح لائنوں سے رساؤ کی وجہ سے ضائع نا ہو استعمال کیلئے زیادہ دنوں تک میسر ہوسکتا ہے ۔
ایک ایسا بھی وقت تھا جب کراچی کی سڑکیں چمکتی دیکھی جاسکتی تھیں۔ متحدو قومی مومنٹ نے کراچی میں بلدیاتی بہت کام کیا ایک وہ وقت بھی تھا جب اسمبلیوں کے منتخب نمائندے بھی ہاتھوں میں جھاڑو لئے بغیر کسی تصویری نمائش کہ اپنے اپنے علاقوں میں عملی کردار نبہاتے دیکھے جاتے تھے ، یہیں تک نہیں بلکہ گلیوں کے گٹروں کی صفائی بھی ایسے ہی کی جاتی تھی۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب اقتدار کو عوام کی امانت سمجھ کر متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے عوام کے بیچ میں ہی رہتے تھے اور جب کراچی بہت خوش ہوا کرتا تھا۔اب کام سماجی میڈیا پر ہوتے دیکھائی دیتے ہیں ، اخبارات میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور اسی طرح تصویروں میں بھی جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ معلوم نہیں کب سے بلدیاتی ادارے اختیارات کی جنگ میں بر سر پیکار ہیں انہیں اپنی سرحدوں کی حفاظت سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی کہ شہر میں کچھ بہتری کیلئے کر سکیں۔ دیگر صوبوں سے صوبہ سندھ کا معاملہ ہمیشہ سے مختلف رہا ہے کیونکہ یہاں صوبائی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہوتی ہے اور کراچی میں بلدیاتی حکومت متحدہ قومی موومنٹ کے پاس رہی ہے ۔جہاں ملک میں بہت ساری انقلابی تبدیلیوں پر کام زور و شور سے جاری ہے وہیں ایک انتہائی اہم اور انقلابی قدم پورے ملک کے بلدیاتی نظام کو بھی مرکز کے ماتحت کر دیا جائے یعنی صدرِ پاکستان کے دفتر میں ایک خصوصی نشت قائم کی جائے جو پورے پاکستان کے بلدیاتی اداروں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ سالانہ بجٹ بھی مختص کرے اور صوبائی گورنر کواس عمل میں قلیدی کردار دیا جائے ۔ تمام صوبوں سے بلدیات کی وزارت کا خاتمہ کردیا جائے۔ پاکستان کے جتنے بھی بڑے شہر ہیں ان کو انتظامی لحاظ سے اور تقسیم کیا جانا چاہئے اور بلدیاتی نظام کو بھرپور فعل بنانا چاہئے ۔ ان شہروں میں موجود بلدیاتی اداروں کو چلانے کیلئے شہریوں پر ایسے چھوٹے چھوٹے ٹیکس عائد کئے جائیں جن کی مد میں ادارے کی محتاجی میں کچھ فرق پڑھ سکے۔وفاق کے پاس جو گاڑیا ں تھیں بیچ دی کئیں ہیں تو کیا بلدیاتی اداروں کی بے تحاشہ مختلف قسم کی گاڑیاں جو استعمال میں بھی نہیں ہیں کیوں رکھی ہوئی ہیں ان کو بھی فروخت کیا جائے اور بلدیاتی ادارے کی کارگردگی میں بہتری لانے کیلئے اس میں خرچ کیا جائے۔ گھوسٹ ملازمین کی شناخت کی جائے۔ ملازمین کی یونین کونسل کے دفتر میں حاضری کو یقینی بنایا جائے اور اسکے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ علاقے کے ناظمین ، کونسلرزاور چئیر مین خود وقت کی پابندی کریں ، بھلے ہی کرنے کیلئے کچھ نا ہو سب ایک جگہ موجود ہونگے تو کچھ نا کچھ کرنے کو نکال ہی لینگے۔ ایک دوسرے پر نظر رکھیں تنقید برائے اصلاح کریں ، ایک دوسرے کو سمجھے اپنے اپنے علاقے کو جنت نظیر بنانے کی کوشش تو کریں ۔ روزانہ کچھ وقت کیلئے اپنے علاقے والوں کیلئے کھلی کچہری لگائیں آپ لوگ جتنا عوام کے درمیان میں رہینگے تو انکے حوصلے کچھ اچھا کرنے کیلئے اجاگر ہونگے۔ یہ سب کچھ سیاسی وابسطگیوں سے ہٹ کر ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایک ایک پاکستانی کی یقین دہانی کہ بغیر پاکستان کبھی بھی بدعنوانی سے پاک نہیں ہوسکتا۔
حکومتیں پھر سے کڑوڑوں روپے خرچ کر کے بلدیاتی انتخابات کرالیں، نئے نئے ترمیمی بلدیاتی بل منظور کرالیں ،متوازی نظام چلالیں ، جب تک اختیارات باضابطہ طور پر منتقل نہیں کئے جائینگے شہری کو بلدیاتی ادارے کی کارگردگی دیکھائی ہی نہیں دی جاسکتی ، چاہے ملک کا کو ئی سا بھی صوبہ کیوں نا ہو۔دوسری صورت میں بلدیاتی نظام ہی ختم کردو اور صوبائی وزیر چلائیں اس نظام کو اور عوام پر اپنے کام سے بھرپور تاثر قائم کریں تا کہ انہیں یہ یقین ہوجائے کہ بلدیاتی ادارے بیکار ہیں۔ اب وقت کچھ کرنے کا ہے ورنہ پیچھے دھکیل دیا جائے گا یا پھر آگے دھکیل دیا جا ئے گا لیکن اپنی جگہ پر کھڑے رہنے نہیں دیا جائے گا۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔