پچھلے مہینے ایبٹ آباد کے ایک معزز عدالت میں پیشی کے بعد افضل کوہستانی کو ان کے دشمنوں نے بڑی آسانی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس نے مرنے سے کچھ دیر قبل ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی۔ جس میں انھوں نے پولیس کے ناروا سلوک اور ظالمانہ روئے کی شکایت کی تھی۔ اس نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ پولیس نے ان سے لائسنس والا پستول اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ان کو بدترین تشدد کا بھی نشانہ بنایا تھا۔
اس طرح افضل کوہستانی کو با آسانی ان کے دشمنوں نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ ہم سب نے ان کی المناک موت کی خبر سنی اور کچھ دنوں بعد اپنے اپنے کاموں مصروف ہوگئے۔ آج ہم میں سے بیشتر لوگ اس بیہمانہ اور انتہائی افسوسناک واقعہ کو تقریبا بھول ہی چکے ہیں۔
اسی طرح آج بھی ایک مجرم احاطہ عدالت سے بھاگنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ان پر ایک ہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان کرنے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام تھا۔ جب ان کی عبوری ضمانت کو عدالت نے مسترد کر دیا تو وہ احاطہ عدالت سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ سارے واقعات دراصل ہماری اجتماعی بے توجہی اور بے حسی کا ثبوت ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص جو کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے کا مجرم ہو اور وہ با آسانی کسی احاطہ عدالت سے فرار ہو؟
یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی شخص کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو۔ ان کے بھائیوں کو پہلے ہی قتل کیا جا چکا ہو اور پولیس اس شخص کی حفاظت کرنے کی بجائے ان کا اپنا لائسنس والا پستول بھی چھین لیں؟
پشاور، راولپنڈی سے لے کراچی تک روز موبائل چھیننے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اب تک سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں مگر پھر بھی ہم خاموش ہیں۔ کسی ایک نوجوان کی موت پر بھی پاکستانی عوام نے مل کر اٹھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ ایسے سینکڑوں ثبوت مل چکے ہیں کہ اکثر واقعات میں پولیس والے خود ڈاکووں اور دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی شہر میں لوگ اسلحہ لے کر آزادی سے گھوم رہے ہوں۔
پاکستانی قوم کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ کسی ملک میں نہیں بلکہ قتل گاہ میں رہ رہے ہیں۔ ہم سب صرف اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔