وزیراعظم عمران خان گزشتہ چند دنوں سے آٹھویں ترمیم کے خلاف بیان دیتے نظر آ رہے تھے،ان کا موقف ہے کہ اس سے وفاق بالکل ہی بے اختیار ہو گیا ہے یہاں تک کہ وفاق کے پاس نظام چلانے کے لئے رقم ہی اکٹھی نہیں ہو پاتی،جس کی وجہ سے وفاق کو کئی سو ارب روپے سالانہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے حالانکہ گزشتہ دور حکومت میں عمران خان آٹھویں ترمیم کے حق میں اکثر بیان دیتے نظر آتے تھے کہ اس ترمیم کی بدولت آج صوبے با اختیار ہوئے ہیں جس سے خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف بہت سے انقلابی کام کرنے کے قابل ہوئی ہے لیکن انتخابات جیتنے کے بعد اس معاملے پر عمران خان کو عیب نظر آنے لگ گۓ ہیں اور اب یہی ترمیم ان کی نظر میں ملک کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔
یہ افواہیں بھی گردش کرنا شروع ہو گئی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف صدارتی نظام لانا چاہتی ہے اور اس کے لئے آٹھویں ترمیم کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لئے انہوں نے اسلامی صدارتی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاملے کی حمایت اور مخالفت میں نا صرف صحافی برادری بلکہ عوام بھی تقسیم نظر آتی ہے اور دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں۔
صدارتی نظام میں ویسے تو کوئی قباحت نہیں ہے،امریکہ اور روس جیسے طاقتور ممالک میں صدارتی نظام کی مثالیں موجود ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان میں بھی صدارتی نظام قائم ہے لیکن پاکستان میں حالات قدرے مختلف ہیں،ہمارے معاشرے میں یہ نظام ہمیشہ سے ہی آمریت کی مضبوطی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی تقریباً نصف تاریخ میں صدارتی نظام نافذ تو رہا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ صدارتی نظام صرف تب رائج رہا جب کسی آمر نے ملک پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کیا۔
پاکستان کی سیاست میں ایک واضح تقسیم یہ رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام کو ترجیح دیتی رہی ہیں جبکہ آمر کا پسندیدہ نظام صدارتی نظام ہی رہا ہے کیونکہ اس نظام میں فرد واحد بلا شرکت غیرے اقتدار کا اعلیٰ مالک بن بیٹھتا ہے۔جس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے لئے کسی کا محتاج نا ہو اور ملک کو ایک بادشاہت کے طور پر چلائے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور احساس محرومی بڑھنے لگتی ہے۔اس نظام کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں کہ کبھی ملک دو لخت ہوا تو کبھی کہیں بغاوت نے جنم لیا۔
اس مرتبہ صدارتی نظام لانے کے لئے جو کوششیں کی جا رہی ہیں،اس میں خطرناک بات یہ بھی ہے کہ ایک پارلیمانی نظام میں ووٹ حاصل کرنے والی جماعت صدارتی نظام لانے کے لئے اسلام کے نام کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صدارتی نظام کی حمایت میں پاکستان تحریک انصاف نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ پارلیمانی نظام میں بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ کوئی ممبر اسمبلی اپنی پسند کی وزارت مانگتا ہے تو کوئی حکومت پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مطالبات نا ماننے کی صورت میں فارورڈ بلاک بنانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
یہ اعتراض کسی حد تک صحیح ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ نظام میں نہیں ہے بلکہ آپ میں ہے۔ اس نظام نے آپ کو مجبور نہیں کیا تھا کہ آپ دھڑا دھڑ ان افراد کو شامل کریں جو ہمیشہ ہی اقتدار کے پلڑے میں پڑے نظر آتے ہیں۔
جب آپ اپنے اقتدار کے حصول کے لئے ایسے افراد کو اپنی جماعت میں شامل کریں گے جو سیاست صرف اقتدار میں آنے کے لئے ہی کرتے ہیں تو اس میں پارلیمانی نظام کا قصور نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام بہت سے ممالک میں نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے،اس لئے آپ اپنی غلطیوں کا الزام نظام پر تھونپ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش مت کریں۔
عمران خان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی نظام کی بدولت آپ لیڈر بنے ہیں لہذا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی کوشش مت کریں کیونکہ ان حالات میں جب ہر سیاسی جماعت آپ کی مخالف ہے،ایسا قدم اٹھانا نا صرف حکومت کے لئے خطرہ کا باعث بنے گا بلکہ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بھی بڑھے گی۔ آج اپوزیشن کے پاس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا کوئی بہانہ نہیں ہے مگر وزیراعظم صاحب ان کو سڑکوں پر آنے کا بہترین موقع فراہم کر رہے ہیں۔
آج جب حکومت عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی اور مہنگائی عروج پر ہے،کوئی بھی نیا نظام لانے کی کوشش سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا کیونکہ کوئی بھی حکومت عوامی حمایت کے بغیر نہایت کمزور ہوتی ہے خواہ اسے کسی بھی ادارے کی حمایت کیوں نا حاصل ہو۔
عمران خان شاید ترکی کے صدر اردگان سے متاثر ہو کر اس نظام کی طرف جانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ طیب اردگان نے بھی کئ سال تک وزیراعظم رہ کر ملک کو ایک بڑی معیشت بنایا،اس کے بعد عوام کا اعتماد حاصل ہوا اور انہوں نے اردگان کے ہر عمل پر اعتماد کیا جبکہ پاکستان میں تو جو ماضی میں پاکستان تحریک انصاف پر اعتماد قائم تھا وہ بھی ان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے جاتا رہا۔
اس کے علاوہ اپنے اقتدار کے لئے اسلام کو سیاست کے لئے استعمال کرنا بھی نقصان دہ ہو گا،پاکستان پہلے ہی اسلام کے نام پر حکمرانی کرنے والے آمر ضیاءالحق کے تاریک دور کا نقصان برداشت کر چکے ہیں،اب مزید ویسی پالیسیاں لانا ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان کو مہنگائی کم کرنے اور معیشت بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ عوام سے کۓ گۓ وعدے پورے ہو سکیں نا کہ ملک کو مزید الجھنوں میں ڈال دیا جائے۔ صدارتی نظام نا ہی ملکی مفاد میں ہے اور نا ہی وزیراعظم صاحب کے بس کی بات ہے۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔