آپ نے دنیا میں موجود مختلف جیلوں کے بارے میں سن رکھا ہو گا۔ کچھ جیلیں خطرناک ترین سمجھی جاتی ہیں تو کچھ ایسی جیلیں بھی موجود ہیں جہاں مجرموں کو سدھارنے کے لئے ان کے ساتھ اس قدر بہترین سلوک کیا جاتا ہے کہ جو سہولیات انہیں جیل میں مہیا کی جاتی ہیں وہ بہت سے ممالک میں آزاد شہریوں کو بھی میسر نہیں ہوتیں۔
ان سب جیلوں میں مجرموں کے ساتھ جیسا بھی سلوک ہوتا ہو لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے کہ ان جیلوں میں قید وہ افراد ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی نا کوئی جرم کیا ہوتا ہے،جس کی وجہ سے سزا کے طور پر اس جیل میں رکھا جاتا ہے۔
آسمان کو چھوتی مضبوط دیواروں اور سینکڑوں اہلکاروں کی نگرانی میں موجود ان مجرموں کو قید کرنے کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اپنے ملک کے شہریوں کو ان کے مظالم سے محفوظ رکھا جا سکے اور وہ مزید کسی کو نقصان نا پہنچا سکیں۔
یہ سب معلومات آپ کے لئے نئ نہیں ہے کہ جسے پڑھ کر آپ کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہو گا کیونکہ بنی نوع انسان میں یہ قانون ہزاروں سال سے چلا آ رہا ہے مگر اسی دنیا میں ایک ایسی جیل بھی ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی واحد کھلی جیل ہے۔ اس جیل میں مقید افراد کو روزگار کے لئے جیل سے باہر جانے کی بھی آزادی ہے مگر سخت نگرانی میں۔
یہ بات پڑھ کر آپ کے ذہن میں یقیناً یہ خیال آیا ہو گا کہ شاید یہ جیل مغرب کی کسی فلاحی ریاست میں ہو گی جہاں مجرموں کو اچھا انسان بننے کا موقع دیا جاتا ہو گا لیکن ایسا بالکل نہیں ہے یہ جیل پاکستان کے ایک پسماندہ صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس جیل میں قید افراد مجرم نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف اس لئے قید کر کے رکھا جاتا ہے کہ اس جیل کے باہر مجرم آزاد گھوم رہے ہیں جو ان کے خون کے پیاسے ہیں۔انہی وحشی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لئے انہیں اس کھلی جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ اس انوکھی جیل کا نام ہزارہ ٹاؤن ہے جہاں ہزارہ برادری کئی صدیوں سے آباد ہے۔
اس برادری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس سخت ترین حالات کے باوجود یہاں تعلیم کا معیار پاکستان کے بہت سے دوسرے علاقوں سے زیادہ ہے،جہاں خواتین بھی تعلیم کے حصول میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں لیکن یہی شعور ان کی کمزوری ثابت ہوا ہے کیونکہ اگر یہ بھی اپنے قاتلوں کی طرح جاہل اور انتہا پسند ہوتے تو کب کے ہتھیار اٹھا کر اپنے پیاروں کے بدلے میں کسی بیگناہ کا قتل کر کے انتقام کا سلسلہ شروع کر چکے ہوتے۔
ہزارہ برادری کا سب سے بڑا المیہ ان کے چہرے کی ساخت ہے،جس کی وجہ سے ان کے قاتلوں کو شناخت کرنے میں مشکل نہیں ہوتی،میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب ان کے سامنے ان کے پیارے کی لاش آتی ہو گی تو وہ اللہ پاک سے کیا شکوہ کرتے ہوں گے کہ مولا! ہم تو زندہ رہنے کے لئے جھوٹ بھی نہیں بول سکتے کہ تو نے ہمیں ایسے چہرے سے نوازا ہے جو ہماری موت کا سبب بن جاتا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کی اگر ہم بات کریں تو ہزارہ ٹاؤن کے گھروں سے زیادہ ان کے قبرستان آباد نظر آتے ہیں جہاں ہر گھر کا پیارا کسی نا کسی ظلم کا شکار ہو کر یہاں آباد ہوا ہے اور اس کے ورثاء اس سے ملنے کے لئے قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔
اس قبرستان میں ہر قبر پر تصویر نصب ہے،کہیں ماں روتی نظر آتی ہے تو کہیں بہن،کہیں باپ اپنے جوان بیٹے کی قبر پر گریہ کر رہا ہے تو کہیں بیوی اپنے اجڑے سہاگ کو زمانے کی تلخیوں کے بارے میں بتاتی نظر آتی ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کے بڑے واقعات میں ہزارہ برادری پر ہوۓ خودکش حملے سرفہرست ہیں جس میں سو سو سے زیادہ جوانوں کی لاشیں اٹھائی گئیں۔
کبھی احتجاج کیا تو کبھی لاشیں رکھ کر دھرنے دیئے گئے،ہر حملے کے بعد حکومت کے اعلیٰ عہدیدار آ کر جھوٹی تسلیاں دے کر پرانے وعدے بھول کر نۓ وعدے کر کے احتجاج ختم کرواتے رہے ہیں مگر قتل عام ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے قاتل نامعلوم ہیں یا غیر ملکی ہیں جو واردات کے بعد ملک سے باہر چلے جاتے ہیں بلکہ قاتل اسی شہر میں دندناتے پھرتے ہیں، کھلے عام جلسوں میں نا صرف قتل عام پر خوشیاں مناتے ہیں بلکہ انسانوں کے قتل کی سینچری بنانے پر نہایت فخر سے گانے بھی گاتے نظر آتے ہیں بس مسئلہ یہ ہے کہ قاتل شاید ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں جنہیں مقتولین کے ورثاء کے احتجاج کے بعد کچھ عرصہ کے لئے نظر بند کر دیا جاتا ہے مگر جب معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے تو نہایت خاموشی کے ساتھ مزید قتل عام کے لئے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے قاتلوں سے مختلف عقائد رکھتے ہیں،کیا پاکستان میں یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ کسی سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا جائے۔
یہ قتل عام کب تک جاری رہے گا اور ریاست کب تک اپنے شہریوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر خاموش کرواتی رہے گی۔
ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کب تک محصور رہیں گے اور کب تک قاتل آزاد گھومتے رہیں گے جبکہ آئین کے مطابق شہری کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔
اب جبکہ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت حاصل ہو چکی ہے اور عمران خان ماضی میں لشکر جھنگوی کی متعدد بار مذمت بھی کر چکے ہیں تو انہیں ہزارہ برادری کی حفاظت کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ انہیں تحفظ کا احساس ہو۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔