قانون کی حکمرانی اور تحفظ۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

دنیا میں جب معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا تو سزا اور جزا کیلئے عدالتوں کا نظام بھی قائم کیا گیا۔ قانون پر عمل درآمد سے ہی انصاف کا ظہور ہوتا ہے۔ انصاف صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہوتا۔ معاشرے کا ہر فرد جج کی حیثیت رکھتا ہے۔ لھذا ہر فرد کے پاس انصاف کرنے کا پورا پورا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیا کا ہر انسان اپنی ذات کا بھی جج ہوتا ہے۔ وہ اپنے تمام اعمال و افعال کا خود منصف ہوتا ہے۔

آج تک دنیا میں صرف ان معاشروں نے ترقی کی ہے جن کی بنیادیں قانون اور انصاف پر استوار ہوتی ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ریگن کا یہ مشہور جملہ ہے کہ ” جب تک امریکہ میں قانون اور انصاف کا احترام باقی رہے گا، امریکہ دنیا کا سپر پاور بنا رہے گا” انسانی ارتقاء پر مبنی ہزاروں سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ ان ملکوں نے دنیا کو بدل ڈالا ہے جن کا عدالتی اور پولیس کا نظام بہترین انصاف پر قائم ہوتا ہے۔
جن ملکوں کی عدالتیں اور پولیس حکمرانوں، سیاستدان ، وڈیروں اور بدمعاشوں کی لونڈی ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے ملکوں کو تباہی اور بربادی سے نہیں روک سکتی۔ ایسے معاشرے ہمیشہ غلام بنے رہتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ بھی ایسی بھیانک واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں قانون اور انصاف کے رکھوالوں نے اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ انگریز جب اس علاقے پر حکمران تھا تو وہ اس قوم کو اپنے غلاموں جیسا سمجھتا تھا۔ عوام کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا تھا۔ مگر انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ہمارے حکمران طبقے کی سوچ نہیں بدلی۔ان کی سوچ انگریزوں جیسی رہی۔ یہ سوچ آج بھی اس ملک کے غریب طبقے کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قانون اور انصاف کو صرف اپنے ذاتی مفادات کو کو تقویت دینے اور اپنے ظالمانہ اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کیا۔

آج 70 سال بعد اس ملک میں عدالتیں اور پولیس تو موجود ہیں مگر کہیں پر بھی انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں عدالتیں موجود ہوں مگر اس کے باوجود حق اور انصاف کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں عدالتیں موجود ہوں مگر لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں بے دردی سے مارا جا رہا ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں عدالتیں موجود ہوں مگر پھر بھی لوگ دہشت تنظیموں کو پاکستان میں خلافت قائم کرنے کیلئے بلا رہے ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں شرعی عدالتیں موجود ہوں اور ملک میں مسلمان ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں عدالتیں موجود ہوں مگر سفاک ہشت گرد مسلمانوں کے ایک فرقے کو 24 گھنٹوں میں قتل کرنے کی دھمکی دے رہیں ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ عدالتوں سے انصاف مانگنے کیلئے آئے ہوئے لوگ عدالتوں کے باہر گولیوں سے چھلنی ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ میر مرتضی بھٹو، بینظیر بھٹو کے قاتل آج تک نامعلوم افراد ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئٹہ میں اہل تشیع مسلمانوں کے دسیوں اجتماعی قبریں بن چکی ہوں مگر پھر بھی سارے قاتل آزادی سے گھوم رہے ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ روز چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں وحشی درندوں کے زیادتی کا نشانہ بنتی ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے ہسپتال میں ڈاکٹر اور عملہ مل کر مریضوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرتے ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مولوی اور استاد اپنے بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرتے ہوں۔

اگر اس ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی ہوتی تو آج ہمارا ملک پاکستان جرائم کی آماجگاہ نہ بنا ہوتا۔ جعلی پیر ، جعلی ڈاکٹر، جعلی عامل ، جعلی دوائیاں، جعلی ڈکری ، جعلی لائسنس ،جعلی دودھ سمیت ہر جگہ دو نمبری کا بازار گرم ہے۔
جب تک پاکستان کا عدالتی نظام آزاد، خود مختار اور فعال نہیں ہوگا اور جب تک پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں کو سیاستدانوں کی غلامی سے آزاد نہیں کیا جاتا۔ یہ ملک کبھی ترقی یافتہ اور پر امن ملک نہیں بن سکے گا۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں