پاکستان میں بڑھتے ہوئے جرائم اور ہمارا سکوت۔۔! (میر افضل خان طوری)

افضل کوہستانی کو عدالت عالیہ کے سامنے گولیوں سے چھلنی کرکے دشمن با آسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے کاروائی کرکے ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ کوئٹہ میں بے گناہ لوگوں پر دھماکہ کرکے ان کو ایک اجتماعی قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اور ماڑہ میں ملک کے جوان محافظوں کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا۔ 22 سالہ خاتون کو ڈاکٹر اور عملہ نے زیادتی کا نشانہ بنا کر زہر کے انجکشن سے مار دیا۔ 4 سالہ بچی کو غلط انجکشن لگا کر قتل کر دیا گیا۔ انجنیئرنگ کے طالب علم کو موبائل چھیننے میں مزاحمت پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

ان سارے واقعات کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں قانون کا غیر فعال ہونا ہے۔ جب قانون پر عمل درآمد کروانے والے خود چوروں، ڈاکووں اور دہشت گردوں سے ملے ہوئے ہوں تو پھر ہر کوئی قانون کو ہاتھ میں لے کر وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

کسی پر ظلم ہونے ، کسی کو بے دردی سے قتل کرنے پر اس ملک کے ہجوم کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ہر شخص صرف اپنی ذات کی اماں مانگ رہا ہے۔ ان کو دوسروں کے برباد ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم سب کا یہی حال ہے کہ صرف ایک دن مذمت کرکے خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ مجرموں کو مزید تقویت اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ پاکستان میں ہر روز بڑے بھیانک اور خوفناک جرائم سر اٹھا رہے ہیں۔

کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ ڈاکٹر بھی کسی مریض کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر بھی کسی انسان کو زہر کا انجکشن دے کر قتل کر سکتا ہے۔

مولوی مسجد میں بیٹھ کر کسی معصوم بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں دین اسلام اس سے بڑی کوئی توہین نہیں ہوسکتی۔ مگر افسوس کہ اسلام کے سارے ٹھیکیدار ایسے سفاک ظالموں کو سزا دینے کیلئے آواز نہیں اٹھا رہے ہیں۔ ان کو یہ سب سے بڑی توہین نظر نہیں ہی نہیں آرہی ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس قسم کے واقعات کو روکنے کیلئے مذید قانون سازی کی جائے۔ ڈاکٹروں اور مولویوں کی خفیہ کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جائے۔ ڈاکٹروں، پولیس، اساتذہ اور مولویوں کے مزید نفسیاتی ٹرینگ کا بندوبست کیا جائے۔

ملک میں سزا و جزاء کے نظام کو فعال بنایا جائے۔ ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناؤنا جرم کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنے پر مجبور ہو۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں