روح اور انسانی حیات۔۔۔! قسط نمبر4 (میر افضل خان طوری)

انسان ہزاورں سالوں سے اس دنیا مادی میں اپنی زندگی گزار رہا ہے مگر پھر بھی اپنی حقیقی ہستی کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔ انسان اپنے پورے جسم میں یہ تعین نہیں کر سکتا کہ اسکا اصل ذات کہاں پر ہے؟ انسانی عقل یہ بات تو تسلیم کرتا ہے کہ اسکا وجود ہے اور اس کی ہستی وجود رکھتی ہے۔ لیکن وہ اپنی ہستی کو کبھی دیکھ نہیں سکتا۔ انسانی انکھ اپنے نفس یا روح کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ انسان صرف حرکات و سکنات سے ہی اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

وجود انسانی بمثل کائنات ہے۔ جس طرح اس جسم کو چلانے والا ، اس کے اعضاء کو اپنے قوت ارادی سے متحرک کرنے والا نظر نہیں آسکتا ہے۔ اسی طرح اس جسم کو متحرک رکھنے والی یہ قوت بھی نظر نہیں آتی۔ دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے ہونے کا انکار نہیں کرتا ہے۔ اگر چہ اسکو اپنی ہستی نظر نہیں آتی مگر بھر بھی وہ کہتا ہے کہ میں ہوں۔ تو پھر وہی انسان اس بات کا انکار کیسے کر سکتا ہے کہ وہ قوت جس نے اس پوری کائنات کو متحرک بنایا ہے، نہیں ہے۔

جس طرح روح ایک مجرد شئے ہے یعنی روح زمان اور مکان کا مختاج نہیں ہے اسی طرح خالق کائنات بھی بھی زمان اور مکان کے احتیاج سے ماورا حقیقت ہے۔

اس سے یہ امر ظاہر ہے کہ معرفت نفس آثار اور نشانیوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ آثار سے ہی موثر تک پہنچا جا سکتا ہے۔جس طرح نفس کی پہچان آثار اور نشانیوں سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح خالق عالم کی پہچان ان کی صناعی اور کمالات قدرت کے نمونوں کو دیکھ کر ہی ممکن ہے۔
جس طرح ہماری جان جسم کے ہر حصے میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ اسی طرح کائنات کا کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں خالق کائنات کا وجود نہ ہو۔
وجود خالق کائنات ذرے ذرے میں اپنا اثر رکھتا ہے۔

انسان کو اس دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے جس ہستی کا سامنا ہوا وہ اسکی اپنی ذات تھی۔ انسا ہی وہ مخلوق تھا جو یہ سوال خود سے پوچھنے لگا کہ میں کون ہوں؟ کب سے ہوں؟ کب تک رہونگا۔ مقصدد حیات انسانی کیا ہے؟ حقیقت حیات انسانی کیا ہے؟

نفس کیا ہے؟ اس کی کتنی حالتین ہیں؟
آگے جاری ہے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں