مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ دنوں نوازشریف سے ملاقات کر کے ان کی عیادت کی اور اس دوران انہیں حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ اس دعوت پر نوازشریف نے معذرت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کا حصہ بننے سے نا صرف انکار کر دیا بلکہ ساتھ ہی مولانا سے جیل میں ملاقات کے لئے نا آنے پر شکوہ بھی کر دیا۔
گزشتہ دور حکومت میں نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد ایک بڑا طبقہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اب وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نظریاتی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں گے کیونکہ انہوں نے ایک خاص طرز کی احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی لیکن ان کے سیاسی کیرئیر کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نوازشریف صاحب نا ہی کبھی نظریاتی تھے اور نا ہی منجھے ہوئے سیاستدان بلکہ صرف ایک خوش قسمت انسان ہیں۔
آج اگر کسی کو وہ نظریاتی نظر بھی آتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جن کے کندھوں پر بیٹھ کر وہ اقتدار میں آتے تھے،وہ ان کو آج قبول نہیں کر رہے۔ ان کی طبیعت میں کبھی مزاحمت تھی ہی نہیں کیونکہ ان کا سیاست میں داخلہ ہی دوسروں کی مہربانی سے ہوا تھا۔ اسی لئے وہ ہمیشہ سے ہی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے لئے مزاحمت کوئی اور کرے مگر اقتدار کے مزے وہ لوٹیں۔
نوے کی دہائی کی سیاست میں نوازشریف نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے جماعت اسلامی کو استعمال کیا۔ قوم آج بھی وہ نعرے “ظالمو! قاضی آ رہا ہے” نہیں بھولی ہو گی جو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم استعمال کیا کرتے تھے۔
یوں جماعت اسلامی کی تحریک کو پیپلزپارٹی کی حکومت کی برطرفی کے لئے استعمال کیا گیا لیکن اتفاق کی بات یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود نوازشریف خود بھی کبھی اقتدار میں زیادہ دیر تک نا رہ سکے اور اپنی ہی غلطیوں سے جلد ہی اقتدار سے زبردستی ہٹا دیئے گئے۔
جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعد بھی شریف خاندان نے آمر کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے جدہ جانے میں عافیت سمجھی۔ اس دوران شریف خاندان خاموشی کے ساتھ بیرون ملک زندگی گزارتا رہا جبکہ پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان پاکستان میں جنرل مشرف کی سختیاں جھیلتے رہے۔
جلاوطنی کے دوران یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ شریف خاندان کی سیاست ختم ہو چکی ہے کیونکہ دس سال کی ملک بدری ایک بہت بڑی سزا تھی مگر قسمت نے ساتھ دیا اور شریف خاندان نا صرف وطن واپس آیا بلکہ دوبارہ اقتدار کے مزے بھی لوٹے۔ شریف خاندان کبھی بھی پاکستان نہیں آ سکتا تھا اگر پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کا معاہدہ طے نا ہوتا۔
اس لئے جب محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان میں واپس آ گئیں تو ان کا سہارا لے کر نوازشریف بھی پاکستان واپس آ گۓ اور فوراًِ ہی اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے وہ احسانات بھی بھول گئے کہ جن کی وجہ سے شریف خاندان پاکستان آنے کے قابل ہوا۔
آج جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نقصان شریف خاندان کا کیا ہے تب بھی نوازشریف حکومت کے ساتھ مزاحمت نہیں کرنا چاہتے،وہ تو بس چاہتے ہیں کہ عدالت انہیں لندن جانے کی اجازت دے دے اور وہ سکون سے غیر ملک میں اپنی فیملی کے ساتھ چند مشکل سال گزارتے رہیں،ان کی جماعت کے کارکنان لڑتے رہیں،مشکلات کا سامنا کرتے رہیں شاید یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کی گرفتاری کے وقت اتنے کارکنان بھی سڑکوں پر نا آ سکے جتنے آصف علی زرداری کی نیب کی پیشی کے وقت جیالے اکٹھے ہو جاتے ہیں بلکہ نوازشریف کی گرفتاری کی نسبت حنیف عباسی کی گرفتاری پر لیگی کارکنان نے زیادہ احتجاج کیا۔
اب اگلے چند ماہ میں پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان حکومت مخالف تحریک چلانے جا رہے ہیں جبکہ شریف خاندان علاج کے بہانے ملک چھوڑ رہا ہے اور اگر پی ٹی آئی کی حکومت الیکشن سے پہلے کمزور ہو گئی تو اچھی بات ہے ورنہ الیکشن سے ایک سال پہلے عوام کے درمیان جا کر وہ دکھ درد بیان کریں گے کہ ہم نے آپ لوگوں کی خاطر جیلیں کاٹیں،میری بیوی فوت ہو گئی مگر میں جیل میں تھا،میری بیٹی جیل میں رہی اور یوں عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے اور ظاہر ہے کہ عوام کا حافظہ ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے،وہ بھی سب کچھ بھول کر شریف خاندان کو مظلوم سمجھ لے گی لیکن اس سے نوازشریف ایک دفعہ پھر اقتدار تو حاصل کر لیں گے لیکن سیاسی تاریخ میں اپنا نام نہیں لکھوا سکیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نوازشریف کی قسمت کب تک ان کا ساتھ دیتی ہے اور کب تک وہ یوں کارکنان کو مشکل میں چھوڑ کر خود سکون کی زندگی گزارنے کے لئے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ اب وقت ہے کہ شریف خاندان پاکستان میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرے کیونکہ قسمت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی کبھی آپ کو خود بھی جدوجہد کر کے اپنی قسمت بدلنا پڑتی ہے۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔