ایم کیو ایم، نئے سیاسی امتحان میں! (شیخ خالد زاہد)

پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ سمیت کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جسے مختلف حروف تہجی لگا کرتقسیم نا کیا گیا ہویا پھربہت ہی مختصر وقت میں اپنی موت آپ ہی مر گئی۔ اسی طرح تاریخ میں بہت سارے اتحاد قائم کئے گئے اور یہ اتحاد سوائے حکومت کے حصول کے اور کچھ بھی ثابت نا ہوسکے مطلب کسی قسم کی نظام میں تبدیلی لانے سے قاصر رہے۔متحدہ قومی موومنٹ بھی پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے اور یہ منظم جماعت بھی اپنے آپ کو ٹوٹنے سے نا بچاسکی پہلے ایک اور پھر یکے بعد دیگرے دو تین حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں بنتی تو عوامی مفادات کے تحفظ کیلئے ہیں لیکن کامیابی کے بعد وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ سیاسی میدان میں کیو ں کودے تھے، اب جن کو اس کودنے سے فائدہ ہوگیا تو وہ لوگ نظام کا حصہ بن کر عوام کے مفادات بھول کر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنا انکے یہاں اولین ترجیح بن جاتی ہے، اور ان کمروں کی خنکی سے انتخابات کے دنوں میں ہی باہر نکلتے ہیں۔

ایم کیوایم کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں مشکل وقت دیا اور اپنی نشستوں کی صورت میں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ بہرحال وفاق میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے ایک بار پھر ایم کیوایم کی ضرورت پڑ ہی گئی اور ایم کیو ایم جو گزشتہ کئی ادوار سے حکومتی نشستوں پر بیٹھتی چلی آرہی ہے ایک بار پھر بیٹھ گئی۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایم کیوایم کی پذیرائی کی اور وقتاً فوقتاًیہ عمل دھراتے رہے ہیں، ایم کیو ایم کو اہم ترین وزارتوں سے بھی نوازاگیا ہے۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ وہ ایم کیوایم کے دیرینہ مسائل حل کرے لیکن حکومت وقت اس وقت کچھ ایسے مسائل کو حل کرنے میں سر دھڑتو کیا اپنے وزراء کی بھی بازی لگائے ہوئے ہے، جسکی وجہ سے ایم کیوایم کچھ محتاط انداز میں پیشقدمی کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔ لیکن ایک بات بہت واضح نظر آرہی ہے کہ خان صاحب کی حکومت بدعنوانی جیسے گھمبیر مسائل سے تھوڑا ساسر اٹھائے گی تو ان کا اگلا ہدف سندھ اور کراچی ہوگاجہاں سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے اور کراچی میں ایم کیوایم سے پہلے ہی گٹھ جوڑ بنا رکھی ہے۔

کبھی ایم کیو ایم کے جلسوں کی گونج پورے پاکستان میں سنی جاتی تھی اور جلسہ کسے کہتے ہیں یہ ایم کیو ایم کے جلسوں سے ہی پتہ چلتا تھا۔گزشتہ دنوں ایم کیوایم پاکستان نے کراچی میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جسکا بنیادی مقصد جو دیکھائی دے رہا ہے کہ وہ ماضی کی گلیوں کی طاقت دیکھنا چارہے ہوں، ہوسکتا ہے انکا مقصد یہ دیکھنا ہو کہ کراچی والے ایم کیوایم کے بانی کی وجہ سے ایم کیوایم کا حصہ تھے یا آج بھی ایم کیو ایم کے نظرئیے کو ماننے والے ہیں یاپھر سندھ کے سیاسی افق پر اپنی حیثیت دیکھانا مقصود ہوسکتا ہے۔ وجوہات کیا ہیں یہ ذمہ داران جانتے ہیں عوام تو بس عوام ہی ہے جو بھی تقریر کرنے کھڑا ہوتا ہے اسکے لئے تالیاں بجانا اپنا محبوب مشغلہ سمجھتے رہے ہیں کیونکہ آجکل خود تصویر (سیلفی)بنانے کا زمانہ ہے یہ جانے بغیر کے کہنے والا ہمارے حق میں بول رہا ہے یا ہمارے خلاف، بس تصویر بنائی اور شور شرابا کیا کچھ وقت اپنے دوستوں یاروں کیساتھ گزارا، تاریخ میں اپنا نام لکھوایا کہ فلانے جلسے میں ہم بھی شریک ہوئے تھے، غیر سیاسی رہتے ہوئے بھی سیاسی ہونے کا ڈرامہ کرنا۔کوئی مانے یا نا مانے پاکستان کی سیاست میں لسانیت نے ہمیشہ قلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی صوبے کو لے لیں کسی حد تک ایسا ہی دیکھائی دے گا، موجودہ حکومت نے اس لسانیت کے لیبل کو ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن برسوں کا لگا روگ ایک جھٹکے میں تو نہیں چھوٹ سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کے جلسے کیبعدسیاسی ماحول میں کسی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے جس کا اندازہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کی جانب سے مل بیٹھ کر سندھ کیلئے کام کرنے کی پیشکش ہے۔ بظاہر ایم کیوایم ایک امتحان میں دیکھائی دے رہی ہے لیکن ایم کیوایم اور اسکے ذمہ داران پیپلز پارٹی سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ماضی میں انکی حکومتوں کا ساتھ دینے پر کیا کچھ ملا ہے بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف ایم کیوایم کو مختلف الزامات کے گندمیں بری طرح لتھڑی ہونے کے باوجود ساتھ لے کر چل رہی ہے اور ایم کیو ایم کے بنیادی نظریہ جس میں وڈیرہ شاہی کی بھرپور مخالفت اور عام آدمی کی بقاء کی جنگ ہے، جوکہ تحریک انصاف کے منشور میں بھی شامل ہے۔ اب ایم کیو ایم کی قیادت کو بغیر کسی سوچ بچار کے اپنے ووٹروں کی خدمت پر یقین رکھتے ہوئے تبدیلی کیلئے آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ایم کیو ایم کا وجود کراچی، سندھ یا ملک کیلئے کتنا اہم یا غیر اہم ہے۔ ایم کیو ایم سے وابسطہ لوگوں کو اپنی عوام پر یہ بات واضح کرنی پڑے گی کہ وہ عہدوں کیلئے تنظیم سے وابسطہ ہیں یا انکا مقصد عوام کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ایم کیوایم سے نکلے ہوئے لوگ جواپنی اپنی جماعتیں بنا بیٹھے ہیں انہیں بھی اس بات پر نظر ثانی کرنی چاہئے کہ اگر منزل ایک ہے تو پھر راہیں جدا جدا کیوں ہیں، مل بیٹھ کر راہوں کا تعین کر لیا جائے۔ملک کی ترقی میں کراچی کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے اور کراچی کی ترقی میں ایم کیو ایم کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اب صحیح معنوں میں تبدیلی کی بات کی جائے تو پاکستان کی ترقی میں ایم کیو ایم (اگر اپنی اندرونی خامیوں پر قابو پانے میں حتمی طور پر کامیاب ہوجاتی ہے) تحریک انصاف کا دایاں بازو ثابت ہوسکتی ہے، اور آنے والے وقتوں میں بہت سارے دیرینہ مسائل حل کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔اس وقت نا صرف ایم کیوایم بلکہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ تعلیم اور نظام تعلیم پر اپنی بھرپور توانائیاں خرچ کریں اور نقل مافیا کا قلاقمہ کرے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں