مقبوضہ بیت المقدس (ویب ڈیسک) اسرائیل کی وزارت انصاف نے تصدیق کی ہے کہ ایک فلسطینی خاندان کو جلا کر موت کی نیند سلانے کے ذمے دار ملزم اسرائیلی نوجوان نے اقرار کیا ہے کہ وہ اس نسل پرستی پر مبنی جرم کی تیاریوں میں شریک رہا۔
عرب ٹی وی کے مطابق یہ پیش رفت اسرائیل کے جنرل پراسیکیوٹر کے ساتھ ایک سمجھوتے کے ضمن میں سامنے آئی ۔اس مذاکراتی سمجھوتے کے تحت جنرل پراسیکیوٹر کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی نوجوان کی جانب سے اقرار جرم کے بدلے اس کے خلاف جیل کی سزا جس کی آخری حد 5.5 سال ہے اس کا اطلاق عمل میں لائے۔
یاد رہے کہ 21 جولائی 2015 کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فلسطینی کے گھر پر آتش گیر مواد پھینکا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے سعد الدوابشہ، اس کی بیوی رہام اور 18 ماہ کا شیر خوار بچہ شہید ہو گئے جبکہ سعد کا چار سالہ بیٹا احمد زندہ بچ گیا۔
اس گھرانے کے تین افراد کی شہادت نے فلسطینی اراضی اور اس کے باہر شدید غم و غصے کی لہر اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے اندر بھی بھرپور مذمت سامنے آئی کیوں کہ واقعے نے یہودی شدت پسندی کو عیاں کر دیا تھا۔اس جرم کا مرکزی ملزم یہودی آباد کار عمیرام بن اولیل ہے۔ حراست میں لیے جانے کے وقت اس کی عمر 21 برس تھی۔ اسے جنوری 2016 میں قانونی طور پر 3 افراد کی ہلاکت کے حوالے سے قصور وار ٹھہرایا گیا۔
اس کے علاوہ 2016 میں ایک دوسرے اسرائیلی کو بھی قتل کی اس کارروائی میں ساز باز کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔ اس وقت مذکورہ اسرائیلی کی عمر 17 برس تھی۔
یہ اسرائیلی آگ لگائے جانے کے وقت جائے وقوع پر موجود نہ تھا۔ اس لیے اس پر قتل کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ادھر الدوابشہ خاندان کے وکیل نے اسرائیلی عدالت میں اعلان کیا کہ اس کے موکلین اٹارنی جنرل اور ملزم کے درمیان طے پائے جانے والے سمجھوتے کی مخالفت کرتے ہوئے زیادہ سخت سزاکا مطالبہ کر رہے ہیں۔
میڈیا کی جانب سے یہودی دہشت گردی کا نام دیے گئے معاملے سے متعلق تحقیقات کو اسرائیل میں انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان نے اسرائیلی حکام پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی حملوں کی تحقیقات کے مقابلے میں اس کیس کی تحقیقات میں سست روی کا مظاہرہ کیا۔
اسرائیلی وزارت انصاف کے بیان میں کہا گیا کہ 16 سالہ اسرائیلی کو اس کے افعال کی دہشت گرد نوعیت کی چھاپ کے پیش نظر دانستہ قتل کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔