واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) ایف اے ٹی ایف نے ایکشن پلان پر اٹھائے گئے پاکستان کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے پاکستان اکتوبر 2019 ءتک ایکشن پلان پر تیزی سے عمل کرے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو 10 نکاتی ایکشن پلان دے دیا۔
اعلامیہ کے مطابق پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے مناسب عمل درآمد کرے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
ایف اے ٹی ایف کے مطابق 1367کالعدم تنظیموں کے اثاثے اور جائیدادیں ضبط کی جائیں، 1373دہشت گردوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں، ان دہشت گردوں کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کوضبط کیا جائے۔
ترکی کے خبر رساں ادارے کے مطابق، پاکستانی دفتر خارجہ کے بعض عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ دوست ممالک نے اس ضمن میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ تاہم، پاکستان کے لیے خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق، پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی تجویز پر حتمی فیصلہ رواں سال اکتوبر میں پیرس میں ہونے والے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان اطلاعات پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم، سابق سفیر اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹیڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے اس معاملے پر بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا۔
رواں سال فروری میں ایف اے ٹی ایف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے جنوری 2019ء کی ڈیڈلائن پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی ہے۔ اس لیے ایف اے ٹی ایف نے مزید اقدامات کے لیے پاکستان کو مئی 2019ء کی ڈیڈلائن دی تھی۔
ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کے بعد پاکستان میں متعدد شدت پسند تنظیموں بشمول کالعدم جماعت الدعوة اور جیش محمد پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ ان کے اثاثے ضبط کرنے کے اقدامات بھی سامنے آئے تھے۔