لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے تفتیش کے سلسلے میں شواہد اکٹھے کرنے اور انہیں فرانزک معائنے کے لیے جمع کروانے کا سلسلہ خاصی سست روی کا شکار ہے۔
ذرائع ابلاغ کو دستیاب پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے کار پر کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں خلیل کو 13، ذیشان کو 10، اریبہ کو 6 اور نبیلہ بی بی کو 4 گولیاں لگیں۔
دوسری جانب جے آئی ٹی کی جانب سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی(پی ایف ایس اے) کو بھیجی جانے والی گولیوں کی تعداد 60 ہے جو پولیس آپریشن کے بعد جائے وقوع سے اکٹھا کی گئیں۔ یہ استعمال شدہ گولیوں کے خول واقعے کے 2 دن بعد سربمہر پیکٹ میں پی ایف ایس اے کو بھیجے گئے۔
اس سلسلے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایف اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اب تک 2 چیزیں موصول ہوئیں ہیں، ایک تو مقتولین کی کار جس میں وہ سوار تھے دوسرا 60 استعمال شدہ گولیوں کے خول۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماہرین اپنی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے شواہد کے معائنے کے منتظر تھے جس کے لیے ایک ہفتے تک انتظار کر کے پی ایف ایس اے نے پنجاب پولیس کو خط لکھا کہ تمام تر متعلقہ ریکارڈ اور اشیا فراہم کی جائیں تا کہ تفتیشی عمل کو تیز کیا جاسکے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی پوسٹ مارٹم رپورٹ، جائے وقوع سے اکٹھے کیے گئے انگلیوں کے نشانات اور مقتولین کے خود آلود لباس فراہم کیے جانے کے منتظر ہیں۔
محمد اشرف طاہر کا مزید کہنا تھا کہ سب سے اہم ثبوت سی ٹی ڈی اہلکاروں کی استعمال شدہ بندوقیں ہیں کیونکہ گولیوں کے خول کو معائنہ کرنا اسلحے کے معائنے کے بغیر ممکن نہیں جس کی فوری فراہمی کے لیے متعلقہ حکام کو درخواست بھیج دی گئی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ جب جے آئی ٹی نے اس کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا تو جان بوجھ کر کی گئی غلطیاں، کوتاہیاں سامنے آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی اراکین کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے پنجاب کے دیگر شہروں میں کیے گئے آپریشن کے برعکس یہاں جائے وقوع سے اہلکار غائب ہوگئے اور عوام کو مذکورہ جگہ پر عمل دخل کا موقع دے دیا۔
ان اہلکاروں نے نہ ہی جائے واردات کو دست اندازی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی نہ ہی وہ اس جگہ موجود رہے جس کی وجہ سے جے آئی ٹی اراکین کے ذہنوں میں سوالات جنم لے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ مذکورہ واقعے پر سی ٹی ڈی کی جانب سے دیے گئے موقف میں بار بار تضاد کے سبب بھی انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آتے ہی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ آپریشن اغوا کاروں سے بچے بازیاب کروانے کے لیے کیا گیا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی انہوں نے گاڑی میں سوار تمام خواتین و مرد کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔
بعد ازاں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ کار کے شیشے کالے تھے اور “دہشتگرد” اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے اس کے ساتھ انہوں نے موٹر سائیکل سوار 2 دہشت گردوں کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا جبکہ خود کش جیکٹ اور دستی بم برآمد کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔
تاہم اگلے ہی روز سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ کار میں سوار گولیوں کا نشانہ بننے والے خاندان کے تینوں افراد بے گناہ تھے۔