اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مغلیہ سلطنت کے زوال کی سرسری معلومات برصغیر کے ہر باسی کو معلوم ہے، لیکن انگریزوں کے برصغیر پر قبضے کے بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد کا کیا انجام ہوا ؟ آج کل مغل خاندان کہاں ہیں؟ کن حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے؟
اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے خواجہ حسن نظامی جو کہ اردو ادب کے مشہور ادیب گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب بیگمات کے آنسو میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد بہادر شاہ ظفر کی اولاد کے حالات بیان کیے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1858 میں جب انگریزوں نے سکھوں کی مدد سے مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو غدر کے مقام پر شکست دی اور دہلی پر مکمل قبضہ کرلیا تو انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو ان کے اہل خانہ سمیت کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں قید کردیا۔
کچھ ہی دنوں بعد انگریزوں نے اس کے 20 بیٹوں میں سے 18 کو سرعام قتل کیا بہادر شاہ ظفر کے صرف 2 ہی بیٹے مرزا جوان بخش اور مرزا شاہ عباس زندہ بچے انہوں نے مغل خاندان کی نسل کو آگے بڑھایا۔
انگریزوں کی جانب سے بہادر شاہ ظفر کے قتل کیے گئے 18 بیٹوں میں سے تین کے سر کاٹ کر دہلی کے خونی دروازے پر لٹکائے گئے تاکہ آئندہ کوئی بھی انگریزوں کے خلاف ایسا اقدام نہ اٹھا سکے۔
اتنی سفاکی کے بعد تھی جب انگریزوں کو چین نہ آیا تو انھوں نے برے بادشاہ بہادر شاہ ظفر غداری اور فریب دہی کا مقدمہ چلایا لالچی میں مقدمے کا ڈھونگ 44 دن چلتا رہا اور آخر میں بادشاہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
سزائے موت کو بعد میں جلا وطنی میں بدل کر ان کو ان کی بیوی اور ان کے دونوں بیٹوں سمیت برما جلا وطن کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی انتہائی برے حالات میں گزاری۔ 1862 میں جب برما میں بہادر شاہ ظفر کی وفات ہوئی تو انگریزوں نے ان کے دونوں بیٹوں کو ہندوستان واپس نہ جانے کی شرط پر زندہ رکھا۔
کیونکہ انگریز اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر یہ دونوں شہزاد ہندوستان واپس آگئے تو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد کی حیثیت سے یہ ہمارے خلاف کسی بھی نوعیت کا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
اس وجہ سے انگریزوں نے مرزا جوان بخش اور مرزا شاہ عباس کو پھر دوبارہ کبھی بھی ہندوستان کا رخ نہ کرنے دیا اور یوں ان دونوں شہزادوں نے اپنی باقی کی تمام زندگی برما کے صوبے رنگون (موجودہ نام ینگون) میں گزاری۔
جہاں تک ان دونوں شہزادوں کی ازدواجی زندگی کا سوال ہے تو بعض محققین کے مطابق مرزا شاہد عباسی شادی رنگون کی ایک سوداگر کی بیٹی سے ہوئی جن سے ان کی کئی اولادیں ہوئیں جو آج کے دور میں بھی غربت کی وجہ سے رنگون کے ایک علاقے میں کچی گلیوں کی بدبو دار جھگیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مرزا جوان بخشش کی ایک ہی بیٹا تھا اس کا نام مرزا جمشید بخش تھا. 1984 میں جگر کی بیماری کی وجہ سے جب مرزا جو ان کا انتقال ہوگیا۔
کچھ عرصے بعد ان کی بیوی بھی چل بسیں والدین کی وفات کے بعد ازاں مرزا جمشید بخش کا بیٹا حالات خراب ہونے پر ہندوستان واپس چلا گیا۔ ہندوستان میں اس نے بیگم نادرہ نامی عورت سے شادی کی جن سے ان کا ایک ہی بیٹا پیدا ہوا اس کا نام مرزا بیدار بخت تھا۔
مرزا بیدار بخت ابھی چھوٹے ہی تھے جب ان کے والدین کا انتقال ہوگیا والدین کی وفات کے بعد مرزا بیدار بخت چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا گزر بسر کرتے رہے اور اپنی اصل پہچان سب سے چھپائے رکھی۔
آزادی ملنے کے بعد مرزا بیدار بخت کی اصل شناخت کے بارے میں جب سب کو معلوم ہوا تو ان کو آخری مغل بادشاہ کے پڑپوتے کی حیثیت سے ہندو سرکار کی طرف سے بھیک کے طور پر ماہانہ کچھ پینشن دی جانے لگی۔
1950 کی دہائی میں مرزا بیدار بخت نے سلطانہ بیگم نامی عورت سے شادی کی جن سے ان کی 5 بیٹیاں اور 1 بیٹا پیدا ہوا۔مرزا بیداربخت جب تک زندہ تھے جب تک ہندو سرکار کی طرف سے کچھ روپے پینشن ملتی رہی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی بیوی اور ان کے بچوں کے لئے ہندو سرکار نے پینشن دینا بند کردی۔
پینشن بند ہونے کے بعد ان کی بیوی اور بچوں کے حالات مزید بدتر ہوتے گئے۔ ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرزا بیدار بخت کی بیوی کو اپنے 6 بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کلکتہ کے علاقے میں چائے کی دکان کھولنا پڑی۔
1982 میں سلطانہ بیگم کو بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوہ ہونے کی حیثیت سے ہندو سرکار کی طرف سے ایک سرکاری مکان بھی دیا گیا جو کہ 1983 کے اختتام تک ان سے واپس لے لیا گیا۔
سرکاری مکان چھیننے کے بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پر پوتے کی بیوہ اور ان کی اولاد بھی کلکتہ کے ایک چھوٹے سے دو کمرے کے مکان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
جنھوں نے تقریبا ساڑھے تین سو سال پورے برصغیر پر حکومت کی آج ان کی اولادیں انڈیا اور برما کے گلی کوچوں میں انتہائی غربت کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔