پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کے انتخابات 20 جولائی کو ہونے جا رہے ہیں۔ کرم، اورکزئی، خیبر، باجوڑ، مہمند، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت سات قبائلی اضلاع ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار قبائلی خواتین اسمبلی میں آسکیں گی۔ قبائلی علاقوں کو پاکستان میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں اپیل کا حق حاصل نہیں تھا۔ 16 حلقوں پر براہ راست انتخاب ہو گا جبکہ خواتین کے لیے چار اور اقلیتوں کے لیے ایک نشست مختص ہے۔
اس طرح خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی علاقوں کے لیے مختص نشستوں کی تعداد 21 ہو جائے گی، بہت سی خواتین عام نشستوں سے بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت کئی افراد طویل عرصے تک جیلوں میں قید رہے تھے، جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ پہلے ان علاقوں میں کسی کو بھی بغیر کوئی وجہ بتائے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا ان انتخابات کے بعد منتخب نمائندے قبائلی علاقوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کر پائیں گے اور کیا ان انتخابات کے بعد کوئی تبدیلی آ سکتی ہے؟
یہ بھی یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو ایک جانب وقت کی ضرورت قرار دیا گیا تو وہیں کچھ عناصر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ جو لوگ انضمام کے حق میں رہے ان کا موقف تھا کہ قبائلی علاقوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے اور ان علاقوں میں مقیم لوگوں کو وہ تمام سہولتیں میسر کی جائیں جو ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لوگوں کو دستیاب ہیں۔ ان سہولتوں میں تعلیم، صحت، روزگار کے علاوہ اس قانون کا نفاذ تھا جو ملک کے دیگر علاقوں میں نافذ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ انضمام کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اصلاحات ضرور کی جائیں لیکن خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد قبائلی علاقے (اضلاع) اپنا تشخص کھو دیں گے اور یہاں قائم صدیوں پرانے رسم و رواج ختم ہو جائیں گے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے گزشتہ سال فاٹا انضمام کے بعد ایف سی آر سمیت تمام کالے قوانین اور فرسودہ روایات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
افغان سرحد کے ساتھ لگنے والے قبائلی علاقے بڑے عرصے تک برطانوی فوج اور افغانستان کے مابین تنازعات کے لیے میدان جنگ بنے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ ان علاقوں پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکا۔ کرم، اورکزئی، خیبر، باجوڑ، مہمند، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت سات قبائلی علاقوں کے علاوہ سات نیم قبائلی علاقے جنھیں ایف آر یا فرنٹیئر ریجنز کہا جاتا تھا۔اب قبائلی اضلاع کا درجہ دیا گیا۔
ان علاقوں میں تعینات پولیٹکل ایجنٹ گورنر کے ماتحت تھا اور ان قبائلی علاقوں کو صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی حاصل تھی اب ڈپٹی کمشنرز تعینات ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں برسر پیکار مجاہدین بھی اس علاقے میں داخل ہوئے۔ امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو بڑی تعداد میں طالبان نے اس علاقے میں پناہ لی اور یہ علاقہ طالبان کے بڑے مراکز یا گڑھ بن گئے۔
فوج کو طالبان سے نمٹنے کے لیے متعدد فوجی آپریشنز کرنے پڑے جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور مقامی افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں شروع کیے گئے فوجی آپریشن ضرب عضب کے بعد ان علاقوں کو شدت پسندی سے خالی قرار دے دیا گیا تھا۔قبائلی علاقوں میں لاگو ایف سی آر قانون کو کالا قانون بھی کہا جاتا تھا اس قانون کے تحت ان قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ اور اس کا عملہ یہاں رہنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مکمل طور پر بااختیار تھا۔
ان علاقوں میں کسی کو بھی بغیر کوئی وجہ بتائے گرفتار کیا جا سکتا تھا اور کسی ملزم کے خاندان والوں کو بھی حراست میں لیا جاتا تھا۔ ایف سی آر کے تحت کئی افراد طویل عرصے تک جیلوں میں قید رہے اور انھیں پاکستان میں قائم عدالتوں تک رسائی کا حق حاصل نہیں تھا۔ قبائلی علاقوں کے لیے پاکستانی قوانین کے تحت پہلی مرتبہ عدالتوں نے کام شروع کردیا ہے۔ پہلے ان علاقوں میں آباد لوگوں کو پاکستان میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں اپیل کا حق حاصل نہیں تھا۔
قبائلی علاقوں میں خواتین کو کہیں کوئی نمائندگی حاصل نہیں تھی۔ علاقے میں جرگے منعقد ہوتے تو اس میں تمام مرد ہوتے اور ِخواتین کو شریک نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی طرح خواتین پر ہر طرح کی پابندیاں تھیں اور وہ چار دیواری تک محدود تھیں۔یہ پہلی بار ہے کہ ان علاقوں میں خواتین کے لیے نشتسیں مخصوص کر کے ان کو باقاعدہ نمائندگی کا حق دیا گیا ہے۔ اس کے لیے بہت سی خواتین عام نشستوں سے بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
اب بھی مخالفین کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے۔ 20 جولائی کو پہلی مرتبہ ہونے والے انتخابات میں لگ بھگ 297 امیدوار 16 نشستوں پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل جائے گی جس سے انھیں قانون سازی اور اپنے علاقوں میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ صوبائی حکومت کا دعوی ہے کہ قبائلی علاقوں کے لیے سب سے زیادہ فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ خاصہ دار اور لیویز فورس کو خیبر پختونخوا پولیس میں ضم کر دیا گیا ہے۔