لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی بلڈ شوگر 10 روز سے چیک ہی نہیں کی گئی ہے۔
مریم نواز نے لاہور میں پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں سینئر رہنما جاوید ہاشمی، سینیٹر پرویز رشید، رکن صوبائی اسمبلی عظمی بخاری اور ڈاکٹر عدنان کے ہمرا پریس کانفرنس میں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے بات کی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ پچھلی جمعرات کو جیل کے سرکاری ڈاکٹر آئے تو رپورٹ دکھاکر پریشان لگ رہے تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی بلڈ شوگر کافی دن سے زیادہ آرہی ہے تو نواز شریف نے کہا کہ آپ نے تو کئی دن سے بلڈ شوگر چیک ہی نہیں کی۔
مریم نے کہا کہ نوازشریف کی بلڈ شوگر 10 روز سے چیک ہی نہیں کی گئی، 3 جولائی کو رپورٹ آئی جس میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کو فوری اسپتال منتقلی کی ضرورت ہے، لیکن جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ 3 جولائی کی رپورٹ آپ 18 جولائی کو دے رہے ہیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور میں نے رپورٹ دیکھی تو وہ 3 جولائی کی تھی اور رپورٹ میں لکھا تھا نواز شریف کو فوری طور پر ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا کہ مجھے اتنی تاخیر سے یہ رپورٹ کیوں دکھائی جا رہی ہے، میرا آئینی اور قانونی حق ہے کہ مجھے میری رپورٹس بروقت دکھائی جاتیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘نوازشریف نے کہا انہیں آج تک پتا نہیں چلا ڈاکٹرز نے کیا تجویز کیا ہے، میں نواز شریف کی بیٹی ہوں مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ انہیں انجائنا کا درد ہورہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے جیل حکام کو خط لکھا کہ میڈیکل رپورٹ کی کاپی دی جائے لیکن کسی نے جواب نہیں دیا، نوازشریف کی صحت کے بارے میں اتنے بڑے فیصلوں سے اہل خانہ کو آگاہ نہیں کیا جارہا۔
نواز شریف کی صاحبزادی کے مطابق جیل حکام نے میاں نواز شریف کے ڈاکٹر اور فیملی کو بتائے بغیر نہ صرف ان کی انسولین بند کردی ہے بلکہ انہیں نئی گولیاں دے دیں اور نئی انسولین شامل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے رپورٹ میں پھر کہا کہ میاں صاحب کو اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے اسپتال میں مختلف ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔
مریم نواز نے کہا کہ میں نے بھی کہا کہ میں بیٹی ہوں اور مجھے بھی کسی نے نہیں بتایا، میں بیٹی ہوں میرا حق تھا کہ آپ نے کسی کو نہیں بتایا یہ مجرمانہ غفلت ہے جس کے بعد نواز شریف نے کہا کہ مجھے رپورٹ دیں تو ان کا جواب تھا کہ فوٹو کاپی کی مشین خراب ہے تاہم ڈاکٹر اور جیل حکام نے کہا کہ رپورٹ آپ کو مل جائے گی۔
سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ جیل آفس انچارج نے نواز شریف صحت پر رپورٹ مجھے نہیں دی لیکن پنجاب حکومت کے کسی ہمدرد نے گزشتہ روز وہ رپورٹ فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اور نواز شریف کے ذاتی معالج نے وہ رپورٹ مانگی تو کسی نے جواب تک دینا پسند نہیں کیا، نواز شریف کے علاج معالجے کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کی جا رہی ہے۔
مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی رپورٹ بھی پڑھ کر سنائی اور کہا کہ حکومت نے ایمرجنسی میں پروفیسر ڈاکٹر ثاقب شفیع، ڈاکٹر شفیق چیمہ، ڈاکٹر سیما امداد، ڈاکٹر احسن نعمان، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر فواد رندھاوا پر مشتمل بورڈ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ نے نواز شریف کا طبی معائنہ کر کے سفارشات پیش کیں اور بورڈ نے سفارش کی کہ ان کے کمرے کا درجہ حرارت مناسب رکھا جائے، نواز شریف کو انجائنا کی شکایت ہے، بلڈ پریشر بھی زیادہ رہتا ہے اور وہ انتہائی خوراک لے رہے ہیں اور انہیں سب لنگویل انجائنا اسپرے کے استعمال کی بھی بورڈ نے سفارش کی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے ذیابیطس کے لیے نئی ادویات بھی شامل کی ہیں، نئی ادویات کے حوالے سے نواز شریف کے ذاتی معالج اور بیرون ممالک میں موجود ڈاکٹروں کے مشورے سے دینی چاہیے تھی۔
حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی خوارک اور ورزش کے حوالے سے بھی ہدایات دی ہیں اور بورڈ نے دوبارہ زور دیا ہے کہ نواز شریف کے مزید ٹیسٹ کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بورڈ کی سفارشات کے باوجود جو کسی کا کھانا اور اے سی بند کرنے کی بات کرے اور کسی کی صحت کے ساتھ اس طرح کی مجرمانہ غفلت کرسکتا ہے کہ اس کے اپنے بنائے گئے ڈاکٹرز کی سفارشات کو میاں صاحب اور ان کے ڈاکٹر سے چھپائے رکھا تو اس سے بڑا ظالم کون ہو گا۔
جیل میں مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیل میں ان کے کمرے کی بجلی 18،18 گھنٹے بند کردی جاتی ہے اور ڈاکٹروں کی سفارشات پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔
مریم نواز نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب اس وقت اپنے دشمن کے ہاتھ میں ہیں اور وہ ان کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ قوم کے سامنے سوال رکھتی ہوں کہ 3 بار کا وزیر اعظم اس طرح کے سلوک کا مستحق ہے کیا یہ اس کا قانونی اور آئینی حق نہیں کہ انہیں بتایا جاتا کہ ان کے صحت کے بارے میں بتایا جاتا یا ان کے ڈاکٹر اور بیٹی کی علم میں لایا جاتا کہ کیا خطرات ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جن ہاتھوں میں میاں صاحب ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں میں ہیں چاہے پنجاب حکومت ہو یا سلیکٹڈ وزیراعظم کی سلیکٹڈ حکومت ہو، میاں صاحب اس وقت اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں، وہ ان کی زندگی کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں اور ان کی صحت کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے وکلا سے مشورہ کر رہی ہوں اور کوشش ہوگی کہ اس معاملے کو اب عدالت میں لے جاؤں۔
سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں علم کہ نوازشریف کو جیل میں کیا کھلایا جا رہا ہے اور ڈاکٹروں کی سفارش کے باوجود انہیں ہسپتال منتقل نہیں کیا جارہا تو اتنی ہمدردی کی توقع نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا میں قومی و بین الاقوامی حالات پر بات کرنے کے بجائے یہ دھمکیاں دی جارہی ہوں کہ میں ان کا جیل میں کھانا بند کردوں گا اور اے سی بند کردوں گا تو ایسے انسان سے یہ توقع کی جائے کہ وہ میاں صاحب کی صحت کے لیے ڈاکٹروں کی سفارشات پر عمل کرے گا۔
احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ویڈیو آنے کے بعد جج کو تو نکال دیا گیا لیکن اس کا فیصلہ ابھی بھی برقرار ہے حالانکہ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا فیصلہ بھی برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ مان چکے ہیں کہ فیصلہ دباؤ میں دیا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں بین الاقوامی آرگنائزیشنز تک بھی میں یہ بات پہنچانے کی کوشش ضرور کروں گی کیونکہ اتنے ناقابل تردید ثبوت پیش کرنے کے باوجود مجھے ابھی تک انصاف کیوں نہیں مل رہا ہے۔
مریم نواز نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انصاف ملنے کی امید نہ ہو لیکن مجھے یقین ہونا چاہیے کہ مجھے عدالت سے انصاف ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرہ پارٹی بھی تک ہائی کورٹ میں کیوں نہیں گئی تو میں ادب سے یہ سوال ان کے سامنے رکھنا چاہتی ہو کہ اگر میرے بارے میں یا میاں صاحب یا مسلم لیگ (ن) کے کسی اور رہنما کے حوالے سے کوئی ویڈیو سامنے آتی اور اس میں کوئی ایسا ثبوت آتا کہ جج کو رشوت کی پیش کش کی جارہی ہوتی تو اور ہمارا کوئی مخالف سامنے لے آتا تو کیا عدالت اس چیز کا انتظار کرتی کہ متاثرہ پارٹی کہے گی کیا یہ معاملہ 184 کا نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جج کی ٹیپ کی آڈیو اور ویڈیو ایک ساتھ ریکارڈ کی گئی ہیں، ویڈیو جاری کرنے کے بعد میں توقع کر رہی تھیں کہ مجھے ہر جگہ گھسیٹا جائے گا، ویڈیو کی تحقیقات ہو رہی ہیں، جج کو ثبوتوں کی بنا پر کٹہرے میں لایا جائے۔
مریم نواز نے کہا کہ جج ایک منٹ بھی اس ویڈیو کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا، اگر جج کو بلیک میل کیا گیا یا رشوت کی پیش کش کی گئی تھی تو جج نے دوران سماعت نواز شریف کو عدالت میں کیوں نہیں پوچھا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے الزام نہیں لگایا بلکہ ثبوت دیا، اب جج صاحب بھی اپنے بیان حلفی کے ثبوت دیں، جج کو کٹہرے میں لانے کے بجائے3 بار کے وزیراعظم کو انصاف نہ ملے تو ہمارے پاس کیا آپشن رہ گیا تھا۔
سوال یہ کیا جائے کہ جج کو کس نے بلیک میل کر کے مرضی کا فیصلہ لیا، تو کیا اس جج کو اعلی عدلیہ کو بتانا نہیں چاہیے تھا۔
مریم نواز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ جج صاحب کی ذاتی ویڈیو نہ ہم دیکھیں گے اور نہ اس کو استعمال کریں گے لیکن میرے پاس تو اس سے بھی زیادہ ثبوت اور نام موجود ہیں اور اگر میں وہ نام سامنے لے آوں تو کہرام مچ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں اتنے ثبوت سامنے لائی ہوں جس سے نواز شریف کی بے گناہی ثابت ہو جائے، ری ٹرائل نہیں چاہیے بلکہ مقدمہ ختم کیا جائے،کیا گارنٹی ہے کہ ری ٹرائل والے جج کو بھی بلیک میل نہیں کیا جائے گا۔
احتساب عدالت کے جج کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اس جج نے فیصلے میں کہا ہے کہ کرپشن سمیت کوئی الزام نہیں، ری ٹرائل منظور نہیں ہے، اعلیٰ عدلیہ بے گناہ کو انصاف دیں اور نواز شریف کو رہا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جج صاحب نے نواز شریف کو جیل بھیجنے کے بعد بار بار پیغامات بھجوا رہے تھے، اگر مجھ سے کبھی پوچھا گیا کہ جج صاحب نواز شریف کو ملنے گھر آئے تھے کہ نہیں تو میں ضرور جواب دوں گی۔
انہوں نے کہا کہ میرے پاس جج صاحب کے بیان حلفی کی ہر بات کا ثبوت موجود ہے۔
ویڈیوز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ویڈیوز حساس ہیں جس میں اس وقت عہدوں پر موجود لوگوں کے نام ہیں، میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ویڈیوز سامنے نہیں لائی اور میں چاہتی ہوں کہ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے کہ مجھے وہ ویڈیوز بھی سامنے لانا پڑے۔
مریم نواز نے کہا کہ مجھے تکلیف ہوئی کہ کشمیر پر بات چیت کا آغاز سلیکٹڈ کے بجائے امریکی صدر کی جانب سے کیا گیا،آپ کو خود مسئلہ کشمیر کی بات کرنا چاہیے تھی کیونکہ آپ کو یاد ہے کہ اقوام متحدہ میں برہان وانی کا مقدمہ پیش کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کے دعوے پر انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ثالثی کے حوالے سے بھارت ہی بتا سکتا ہے کہ انہوں نے اس پر کیا کہا ہے۔
مریم نواز نے میڈیا کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 126 دن کے دھرنے کے دوران نواز شریف نے ایک دن بھی عمران خان کی تقریر نہیں سنی، دھرنے کے دوران بھی نواز شریف کو کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ عوام ان کے ساتھ کھڑے تھے اور نواز شریف نے کوئی پابندیاں نہیں لگائیں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں پر عمران خان کی مدد کے الزام لگ رہے ہیں، کیا ایسے الزامات سے اداروں کو آپس میں یا عوام سے لڑایا جائے گا، عوام کو اداروں کے سامنے کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔
مسلم لیگ کی نائب صدر کا کہنا تھا کہ پارٹی میں قیادت کرنے والے کم نہیں، آپ گرفتاریاں کر کے تھک جائیں گے لیکن قیادت کم نہیں ہو گی، فیصل آباد کی ریلی کے دوران بڑے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے عوام نے اپنے ہاتھ میں لے لیے تو اس وقت سے ڈرنا چاہیے اور میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پابندیاں خوف پر لگتی ہیں، میڈیا ہاوسز اکٹھا ہو کر ان پابندیوں کے خلاف آئین اور قانون کا سہارا لیں ورنہ یہ آپ کے اوپر سے گزر کر چلے جائیں گے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بات تو عوام تک پہنچ ہی جاتی ہے، ٹی وی پر کوئی کوریج نہیں ہوئی اور اخبارات میں بھی کچھ شائع نہیں ہوا لیکن کیا عوام کو نہیں پتہ چلا کہ رات 3 بجے فیصل آباد میں ریلی نکلی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی 7 سال قید کی سزا لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں۔