نیویارک + ماسکو + دمشق (ڈیلی اردو/ نیوز ایجنسیاں) شامی حکومت نے شمال مغربی علاقے ادلب میں مشروط جنگ بندی پرآمادی کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ ادلب کو اسلحہ سے خالی علاقہ قرار دینے کی روسی اور ترک تجویز کے بعد سرکاری فوج جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب روس نے شامی حکومت کی طرف سے ادلب میں جنگ بندی پرعمل درآمد کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔
ادھر ایک دوسری پیش رفت میں سلامتی کونسل کے 10 رکن ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس پر ادلب گورنری میں بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اسد رجیم کے جرائم کی آزادانہ تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کامطالبہ کیا ہے۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق ترکی اور روس نے ادلب کو اسلحہ سے خالی علاقہ قرار دینے کا ایک معاہدہ کیا ہے اور شامی حکومت کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب آستانا میں شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کو ایک مصدقہ عسکری ذریعے کے حوالے سے بتایا گیا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب سے ادلب میں جنگ بندی پرعمل درآمد شروع کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت نے جنگ بندی کی تجویز اس شرط پرقبول کی ہے کہ ادلب میں موجود جنگجو بھاری اور درمیانے درجے کے ہتھیار ترک کرنے کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے وضع کردہ علاقے سے 20 کلو میٹراندر چلے جائیں گے۔
دوسری جانب روس نے شامی حکومت کی طرف سے ادلب میں جنگ بندی پرعمل درآمد کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ شام کے لیے روس کے خصوصی ایلچی الیکذنڈر لافرنٹییو نے قزاقستان کے درالحکومت میں ایک بیان میں کہا کہ ادلب میں شامی حکومت کی طرف سے جنگ بندی پرآمادی قابل تعریف اقدام ہے۔
خیال رہے کہ ترکی اور روس نے گذشتہ برس ستمبر میں ادلب میں کشیدگی کم کرنے اور جنگ کے خطرات ٹالنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا مگر اس پرعمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔
ادھر ایک دوسری پیش رفت میں سلامتی کونسل کے 10 رکن ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس پر ادلب گورنری میں بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اسد رجیم کے جرائم کی آزادانہ تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق رواں سال اپریل سے شمال مغربی شام میں جاری لڑائی کے دوران 500 عام شہری شہید اور چار لاکھ 40 ہزار نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیم آبزرویٹری کے مطابق تین ماہ کے دوران ادلب اور اس کے مضافات میں اسد رجیم اور روسی فوج نے 65 ہزار فضائی اور زمینی حملے کئے۔