ساہیوال (ڈیلی اردو) سانحہ ساہیوال میں گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کرکے چار افراد کو قتل کرنے سے انکار کردیا اور کہا نہ گاڑی پر فائرنگ کی نہ ہی کہیں سے فائرنگ کا حکم ملا، چاروں افراد موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے، انھوں نے تو صرف جوابی فائرنگ کی۔
تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی کی سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں صفدر، رمضان، سیف اللہ اور حسنین سے تفتیش کے ابتدائی نکات سامنے آگئے
، دوران تفتیش جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا کہ فائرنگ کس نے کی تو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جواب دیا کہ فائرنگ ہم نے نہیں کی تھی۔
جے آئی ٹی نے پوچھا کار سوار کیسے ہلاک ہوئے؟ تو اہلکاروں نے بتایاچاروں افرادموٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔
جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا گولی چلانے کا حکم کس نے دیا ؟ ملزمان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی نے حکم نہیں دیا، ہشتگردوں کی فائرنگ کے جواب میں فائرنگ کی تھی۔
اس سے قبل آج سانحہ ساہیوال کے مدعی جلیل نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے دو ٹوک کہا کہ جےآئی ٹی کونہیں مانتا، شناخت پریڈ میں نہیں آؤں گا، بلاجواز عینی شاہدین کوتنگ کیا جارہا ہے۔
گذشتہ روز سانحہ ساہیوال کے مقدمے کے مدعی مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے ملزمان کی شناخت پریڈ کرنے سے انکار کردیا تھا، جلیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو نہیں مانتے کیوں کہ جے آئی ٹی ان کا کیس خراب کررہی ہے اور جب تک تمام ملزمان نہیں پکڑتے جاتے شناخت پریڈ کیسے ہوگی اور ویسے بھی پولیس اور جے آئی ٹی کو پتا ہے کہ ان کے مقتولین کے قاتل کون ہیں۔
سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ ذیشان، خلیل کی گاڑی پر فائرنگ کا حکم ایس ایس پی جواد قمر نے دیا تھا، سی ٹی ڈی ذیشان کو زندہ پکڑنا ہی نہیں چاہتی تھی، کارمیں سوار افراد کو گولی مارنے کا حکم ایس ایس پی جواد قمر نے دیا تھا۔
اس سے قبل جے آئی ٹی اہل کاروں نے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے اہل کاروں سے پوچھ گچھ کی تھی ، جس میں اہل کار جے آئی ٹی کو شواہد اور انٹیلی جنس رپورٹ کی معلومات نہ دے سکے تھے اور سی ٹی ڈی ٹیم کے صفدر حسین سمیت 7 اہل کاروں کے بیانات میں تضاد پایا گیا جبکہ انکوائری میں عینی شاہدین نے سی ٹی ڈی اہل کاروں کو قاتل قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں کے بنایات میں واضح تضادات تھا۔
وزیراعظم نے ساہیوال واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی تھی۔
جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
بعد ازاں سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا چاروں افراد کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئیں، قریب سے گولیاں مارنے سے چاروں افراد کی جلد مختلف جگہ سے جل گئی، 13 سال کی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔