خرطوم (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کو فوج کی جانب سے سبکدوش کیے جانے کے بعد کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کا سامنا ہے جہاں تفتیش کرنے والے پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب سے 9 کروڑ ڈالر وصول کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
خرطوم کی عدالت میں سابق صدر کو کرپشن کے مقدمے میں لوہے کے پنجرے میں پیش کیا گیا اور پہلی سماعت میں وہ خاموشی سے ان کے خلاف عائد کیے گئے الزامات کو سنتے رہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عمر البشیر کو ناجائز طریقے سے غیر ملکی کرنسی رکھنے اور غیر روایتی انداز میں تحائف وصول کرنے کے الزامات کا سامنا ہے تاہم سابق صدر کے وکیل نے تمام الزامات کو مسترد کردیے۔
سابق صدر کے وکیل نے سماعت کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قائدین کے لیے غیر ملکی کرنسی رکھنا معمول ہے۔
عدالت میں جب سابق صدر سے ان کے نام، عمر اور ایڈریس کے حوالے سے تصدیق کی گئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا ایڈریس بتایا کہ ‘اس سے پہلے آرمی ہپڈکوارٹر میں ضلع ایئرپورٹ میں تھا لیکن اب کوبر قید خانہ ہے’۔
یہ وہی جیل ہے جہاں سابق صدر اپنے دور میں اپنے ہزاروں مخالفین کو قید میں رکھتے تھے۔
سعودی عرب کی حکومت نے سوڈان کے سابق صدر کو کروڑوں ڈالر کی وصولی کے حوالے سے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔
خیال رہے کہ عمرالبشیر کو اپنے 30 سالہ طویل حکمرانی کے دوران بغاوت، معاشی بحرانوں، امریکی پابندیوں اور فوجی مداخلتوں کا بھی سامنا رہا جبکہ انہیں رواں برس اپریل میں حکومت سے بے دخل کردیا گیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے دوران سابق صدر کے خاندان کے افراد نے اللہ اکبر کے نعرے بھی لگائے اور پنجرے میں موجود عمر البشیر ہاتھ اٹھا کر جواب دیا جبکہ خاندان کے چند افراد کو پنجرے کے اندر ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔
عمرالبشیر کے خلاف کرپشن کے حوالے سے تفتیش کرنے والی تفتیشی ٹیم کے رکن پولیس برگیڈیئر جنرل احمد علی محمد نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر نے کہا کہ انہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر وصول ہوئے۔
انہوں نے سابق صدر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد بن سلمان نے انہیں یہ رقم سوڈان کے سرکاری بجٹ کے علاوہ خرچ کرنے کے لیے فراہم کی تھی اور اس رقم کو عطیات کے لیے استعمال کیا گیا۔
عدالتی ذرائع کا کہنا تھا کہ 3 لاکھ 51 ہزار ڈالر کی رقم عمرالبشیر کی رہائش گاہ سے برآمد ہوئی تھی جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
برگیڈیئر جنرل احمد علی محمد کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے تفتیشی ٹیم کو یہ بھی بتایا کہ انہیں سابق سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کی جانب سے دو مخلتف مواقع پر 6 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بھی ملے تھے۔
دوسری جانب سابق صدر کے وکیل احمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ‘عمرالبشیر کو غیر قانونی طریقوں سے رقم ملنے کے الزام کے کوئی ثبوت یا معلومات نہیں ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کرنسی کے حوالے سے جو الزام عائد کیا جارہا ہے وہ صدارتی رہائش گاہ میں ان کے دفتر میں ایک کمرہ تھا۔
یاد رہے کہ عمرالبشیر کو مئی میں مظاہرین کے قتل میں ملوث ہونے اور تشدد کے حوالے سے مقدمات قائم کیے گئے تھے جبکہ تفتیش کار ان سے منی لانڈرنگ سے متعلق بھی سوالات کرنا چاہتے ہیں۔
سابق صدر عمر البشیر پر سوڈان کے دارفر خطے میں قتل و غارت کے ماسٹر مائنڈ کے الزام میں ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں فردم جرم عائد کی گئی تھی۔
سوڈان میں گزشتہ کئی ماہ سے فوجی کونسل اور اپوزیشن سمیت مظاہرین کی قیادت کے درمیان حکومت سازی پر مذاکرات ہورہے تھے جنہوں نے گزشتہ ہفتے کے اواخر میں حتمی معاہدے پر دستخط کرکے اس بحران کو ختم کردیا لیکن تاحال حکومت سازی کے فارمولے پر عمل نہیں کیا جاسکا۔
عمرالبشیر کو معزول کرنے کے بعد فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا جس پر احتجاج میں مزید شدت آگئی تھی اور مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ فوج حکومت چھوڑ کر واپس چلی جائے اور سویلینز کو حکومت کا حق دیا جائے۔
فوج نے 3 جون کو مظاہرین پر گولیاں بھی برسائی تھیں جس کے نتیجے میں کئی افراد مارے گئے تاہم اس تشدد کے ذمہ دار کئی فوجیوں کو برطرف کر دیا گیا تھا۔