دہشت گردوں کو اسلحے کی فراہمی: شامی فضائیہ کا ترک فوجی قافلے پر حملہ، 3 ہلاک، 12 زخمی

استنبول + دمشق (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) ترکی کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ شام میں باغیوں کے زیر اثر علاقے میں ترکی کے فوجی قافلے کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 3 شہری جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارت دفاع نے بتایا کہ فضائی حملے میں ان کی فوج کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔

تاہم شام کی حکومت کا کہنا تھا کہ یہ قافلہ ملک میں ان باغیوں کی مدد کے لیے گولہ بارود لے کر داخل ہوا تھا، جو باغیوں سے ملک کے آخری مضبوط حصے کو چھڑوانے کے لیے حکومت کی کارروائیوں کے دوران رواں ماہ زمین سے محروم ہوگئے تھے۔

اس حملے میں ترک فوجیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں کوئی تفصیل نہ بتاتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے کہا کہ قافلے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ شمال مغربی شام کے صوبے ادلب میں ترکی کی آبزرویشن پوسٹس میں سے ایک کی طرف جارہا تھا۔

ترکی کی وزارت دفاع نے ایک مختصر بیان میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی لیکن اس فضائی حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ اس حوالے سے معاہدوں کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ ہمارا تعاون اور بات چیت ہے۔

واضح رہے کہ ادلب صوبہ باغیوں کے کنٹرول میں ہے اور اسے خالی کروانے کے لیے حکومتی کارروائیاں جاری ہیں۔

شامی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بکتر بند گاڑیوں کا یہ قافلہ باغیوں کے زیراثر خان شیخون کے اس علاقے میں ہتھیار فراہم کرنے جارہا تھا جو ادلب صوبے کے جنوبی کنارے کے ساتھ لڑائی کے پہلے محاذ پر واقع ہے۔

اس علاقے میں القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تنظیم حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا قبضہ ہے، جو باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں میں سب سے زیادہ طاقتور گروپ ہے۔

دوسری جانب رپورٹ میں کہا گیا کہ ترکی کا ادلب کی طرف بڑھنا انقرہ کی طرف سے پیغام ہے کہ وہ شامی فورسز کو خان شیخون پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔

ادھر شامی حکومت کی فورسز پیر کو اس علاقے کے مضافات میں داخل ہوئی تھیں، تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا شامی حکومت یا روسی جنگی طیاروں میں سے کس نے قافلے کے قریب حملہ کیا لیکن اس کارروائی نے ادلب میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔

ادھر شامی اکٹوسٹس کا کہنا تھا کہ یہ حملے ہائی وے کے قریب ہوئے، جہاں سے قافلہ گزر رہا تھا۔

واضح رہے کہ 2012 سے اس علاقے کا کنٹرول رکھنے والے باغیوں کو ترکی کی حمایت حاصل ہے جبکہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو روس کی حمایت ہے اور وہ ادلب کا کنٹرول واپس چاہتے ہیں۔

علاوہ ازیں ترکی کی نجی ڈی ایچ اے نیوز ایجنیس کا کہنا تھا کہ شامی حکومتی طیاروں نے کمک گاڑیوں اور اہلکاروں کو لے جانے والے ترک فوج کے قافلے کے روٹ کو نشانہ بنایا۔

ایجنسی نے کسی جانی نقصان کی رپورٹ کیے بغیر کہا کہ قافلہ آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ مارت النعمان اور خان شیخون کے درمیان روٹ کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد محفوظ جگہ پر پناہ لی۔

ادھر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ہائی وے کے قریب فضائی حملہ روسیوں کی جانب سے کیا گیا اور زبردستی تقریباً 25 گاڑیوں کے ترک قافلے کو روکا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس روس اور ترکی میں ایک بفرزون معاہدہ ہوا تھا، جو خطے کے 30 لاکھ لوگوں کو حکومت کی ایک مکمل کارروائی سے محفوظ بنانے کے لیے تصور کیا جارہا تھا لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا۔

مبصرین کے مطابق اپریل سے اب تک حکومت اور روس کے فضائی حملوں اور شیلنگ میں 850 سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بدامنی کے باعث 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ خبررساں اداروں کے مطابق گزشتہ کئی روز سے درجنوں خاندانوں کو نقل مکانی کرتے دیکھا گیا۔

شام کے تنازع کو دیکھیں تو یہ 2011 میں شروع ہوا تھا اور اب تک 3 لاکھ 70 ہزار سے زائد لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں