واشنگٹن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) امریکا نے ایران کی تین خلائی ایجنسیوں پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔ان میں ایک خلائی ادارہ اور دو تحقیقاتی مرکز ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی محکمۂ خزانہ نے یہ پابندیاں منگل کو ایران اسپیس ایجنسی، ایران اسپیس ریسرچ سینٹر اور ایسٹروناٹک ریسرچ انسٹیٹیوٹ پر عائد کی ہیں۔
ایران پر حالیہ پابندیوں کے حوالے سے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ ایران کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اپنے خلائی پروگرام کی آڑ میں بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام کو آگے بڑھائے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ ایران کی جانب سے 29 اگست کو سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ جمعرات کو شمالی ایران میں واقع امام خمینی خلائی مرکز میں ایران کا ایک راکٹ پھٹ کر تباہ ہو گیا تھا۔ ایران کی جانب سے سیٹلایٹ لانچ کرنے کے اس منصوبے پر امریکہ نے نکتہ چینی کی تھی۔
اس سے قبل رواں سال جنوری میں بھی ایران نے سیٹلائٹ لانچ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
یہ تیسری بار ہوا ہے جب ایران کی جانب سے سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش ناکام ہوئی ہے اور اس ناکام لانچنگ کے بعد ایران کے خلائی پروگرام کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق ایران کی خلائی ایجنسیوں پر لگائی جانے والی حالیہ تعزیرات ان پابندیوں کا حصّہ ہیں جو ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔
محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اسپیس ایجنسی، ایران اسپیس سینٹر کے ساتھ خلائی پروگرام کے لیے تحقیق اور ڈیویلپمنٹ پر کام کرتی ہے۔ لیکن یہ دونوں ایجنسیاں ’شاہد ہیمت‘ نامی اس صنعتی گروپ کے ساتھ کام کر رہی ہیں جس پر امریکہ نے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
ایسٹروناٹک ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے متعلق امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل تیار کرتا ہے۔ اس لیے ان ایجنسیوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
دوسری جانب ایران نے امریکہ کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ ایران خلائی پروگرام کی آڑ میں ہتھیار بنانے پر کام کر رہا ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ جوّاد ظریف کا کہنا ہے کہ امریکہ پابندیاں لگانے کا عادی ہے۔ یہ پابندیاں غیر مؤثر ثابت ہوں گی اور ایران ان پابندیوں کو مسترد کرتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مئی 2018ء میں ایران سے جولائی 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہوگئے تھے اور نومبر میں ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جس سے اس کی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے۔
امریکا نے تب سے ایران کے اداروں اور سرکاری شخصیات کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔