جدہ (ڈیلی اردو) سعودی عرب میں جمعرات کو صوبہ پنجاب کے ضلع چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کا سر قلم کر دیا گیا۔
سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق پاکستانی شہری محمد عمران پہ منشیات اسمگلنگ کا الزام تھا اور اسی جرم کی پاداش میں پاکستانی شہری کا جدہ کے شمیسی جیل میں سر قلم کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ڈاریکٹر سارہ بلال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سعودی عرب نے اپنی جیلوں میں قید ہزاروں پاکستانیوں میں سے دو ہزار کے لگ بھگ پاکستانیوں کی رہائی کے وعدے پر عمل نہیں کیا بلکہ ان میں سے کچھ کی سزائے موت پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال فروری میں پاکستان کے اعلی سطحی دورے میں وزیراعظم عمران خان کے سامنے اکیس سو سات پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد پچھلے ماہ اگست میں سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر ذلفی بخاری نے اعلان کیا کہ تیرہ سو پچاس پاکستانی قیدیوں کو رہا کرواکر واپس ملک لایا جا چکا ہے۔ تاہم انہوں نے ان قیدیوں کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں نہ ہی باقی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کچھ واضح کیا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق بیرون ملک جیلوں میں گیارہ ہزار کے قریب پاکستانی موجود ہیں، جن میں سات ہزار کے لگ بھگ مشرق وسطی ٰمیں قید ہیں۔
سعودی عرب یوں تو پاکستان کا بڑا اتحادی ہے لیکن اس کی جیلوں میں موجود غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد بھی پاکستانیوں کی ہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں تین ہزار چار سو پاکستانی قید ہیں، جن میں سے اس سال اب تک ایک خاتون سمیت چھبیس افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
سر قلم کرکے سزائے موت پر عملدرآمد کا تازہ ترین واقعہ جمعرات کے روز جدہ کے شمیسی جیل میں پیش آیا جس میں چیچہ وطنی کے ایک مزدور محمد عمران کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وہ 2011 میں کام کی غرض سے سعودی عرب گئے تھے ۔ انہیں جدہ ائیرپورٹ پر منشیات کے الزام میں پکڑا لیا گیا تھا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق ان پر چلنے والے مقدمے کی تمام تر کارروائی عربی زبان میں کی گئی، انہیں کوئی مترجم نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہیں اپنے قانونی دفاع کے لیے کوئی سہولت فراہم کی گئی۔
قانونی ماہرین کی سعودی عرب کے عدالتی نظام پر سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ اس نظام کے تحت دی جانے والی سزائیں انصاف کے تقاظوں پر پورا نہیں اترتیں اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔
سعودی حکام عام طور پر موت کے گھاٹ اتارے جانے والے قیدیوں کے ورثا کو نہ سزا کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور نہ انہیں قیدی سے آخری ملاقات کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سزائے موت کے بعد قیدیوں کی لاشیں بھی اکثر ورثا کے حوالے نہیں کی جاتیں بلکہ وہیں دفنا دی جاتی ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق یہ روش قانونی، اخلاقی اور اسلامی اقدار کے بھی منافی ہے، جسے سعودی حکومت کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
محمد عمران کے ورثا کا سعودی حکام سے مطالبہ ہے کہ ان کی لاش خاندان کے حوالے کی جائے تاکہ وہ ان کی تدفین اپنی روایات کی مطابق کر سکیں۔