اسلام آباد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) چیئرمین نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لے لیا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے اتفاق رائے سے قومی احتساب بیورو آرڈیننس میں اپوزیشن کے ترمیمی بل کی منظوری دے دی، حکومتی اتحادی جماعت نے بھی بل کی حمایت کی۔
بل کے تحت الزام لگنے پر یا دوران تفتیش کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، 50 کروڑ روپے یا اس سے کم بدعنوانی کا مقدمہ نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا۔
ریفرنس دائر ہونے تک نیب افسران اسے لیک نہیں کریں گے، 90 دن کے بجائے 60 دن میں انکوائری، تحقیقات ختم کی جائے گی۔
نیب اس دوران گرفتار نہیں کر سکے گا، تحقیقات ختم ہو نے کے بعد ریفرنس دائر کیا جائے گا، جس کے بعد عدالت سمن یا قابل ضمانت وارنٹ جاری کرے گی اور ملزم آ کر مچلکہ دے گا اور وہ پیش نہیں ہوتا تو پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔
پلی بارگین عدالت کی اجازت سے ہو گی، پلی بارگین کرنے والے کو سزا نہیں ہو گی اور اگر وہ پبلک آفس ہولڈر ہے تو صرف 5 سال کے لیے نااہلی ہو گی اگر سرکاری ملازم ہے تو اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ غلط الزام لگانے یا غلط تفتیش کرنے والے نیب افسر کو بھی جواب دہ بنایا جارہا ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک بل کے محرک تھے۔
قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔
اجلاس کی کارروائی کے آغاز میں بلوچستان کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی آئینی ترمیم پر غور کیا گیا، حیران کن طور پر اس ترمیم پر الیکشن کمیشن کو مدعو کیا گیا نہ رائے لی گئی، آئندہ اجلاس میں وزارت قانون سے تحریری رپورٹ اور مردم شماری کے حکام کو طلب کرلیا گیاہے۔
اجلاس میں جنوبی پنجاب و بہائولپور کو صوبہ بنانے کے مشترکہ آئینی ترمیمی بل پر غور کیا گیا۔
وزارت قانون و انصاف کے حکام نے کہاکہ اس بارے میں پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی ہم اس پر عملدرآمد کے پابندہوں گے۔
سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ وزارت قانون کی اس سے بڑی نا اہلی کیا ہوسکتی ہے کہ یہ تیاری ہی کرکے نہیں آتے۔
چیئرمین کمیٹی نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا اور کہاکہ وزارت قانون آئندہ اجلاس میں نئے صوبوں کے با رے میںتحریری طورپر اپنے موقف سے آگاہ کرے۔