پشاور (ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے ایک اور ڈاکٹر کو اغوا کر لیا گیا ہے جو رواں ماہ ان اضلاع سے اغوا ہونے والے محکمہ صحت کے تیسرے ڈاکٹر ہیں۔
وائس آف امریکا کے مطابق قبائلی ضلع باجوڑ میں واقع بنیادی مرکز صحت میں فرائض سر انجام دینے والے سینئر ڈاکٹر جبار خان کو نامعلوم افراد نے جمعرات کی شام کو اغوا کیا۔
ڈاکٹر جبار خان تحصیل ناوگی کے ایک گاؤں چارمنک بلال خیل کے سرکاری مرکز صحت کے انچارج اور انسداد پولیو مہم کے ترجمان تھے۔
ڈاکٹر جبار خان 11 ستمبر سے اب تک اغوا ہونے والے محکمہ صحت کے تیسرے ڈاکٹر بتائے جا رہے ہیں۔
رواں ماہ 11 ستمبر کو قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا کے سرکاری ہسپتال سے ڈاکٹر نورخنان کو اغوا کیا گیا تھا جبکہ 14 ستمبر کو تبارزہ کے گاؤں بوڑکی سے نامعلوم افراد ڈاکٹر عابد رحمان قریشی کو اغوا کر کے لے گئے تھے۔
ضلع باجوڑ کے پولیس افسر شہاب علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام کے وقت ڈاکٹر جبار اپنے گھر ہی میں موجود تھے کہ اس دوران بعض نامعلوم افراد نے انہیں ایک مریض دیکھنے کے لیے ساتھ چلنے کی درخواست کی تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ اُن افراد نے ڈاکٹر جبار کو اغوا کر لیا ہے۔
ضلعی پولیس افسر نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر کی بازیابی کیلئے رات بھر کوشش جاری رہی مگر اندھیرے کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مقامی لوگوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
شہاب علی شاہ نے کہا کہ اب بھی ان کی جلد اور بحفاظت بازیابی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں ڈاکٹروں کی تنظیم وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر زین نے جمعے کے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نورخنان کے اغوا سے متعلق حکومتی سرد مہری پر افسوس کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر زین کا کہنا تھا کہ 10دن سے کم عرصے کے دوران تین ڈاکٹر اغوا ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں قبائلی اضلاع کے تمام ہسپتالوں میں فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر اور طبی رضا کار بے چینی کا شکار ہیں۔
اُنہوں نے حکومت سے اغوا کیے جانے والے ڈاکٹر نور خنان اور دیگر کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹرز کی عدم بازیابی پر اُنہوں نے جنوبی وزیرستان میں جاری ہڑتال اور احتجاج کا دائرہ صوبے بھر کے طبی مراکز صحت تک بڑھانے کی بھی دھمکی دی ہے۔
قبائلی اضلاع میں طبی مراکز کی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر زین نے کہا کہ ان کے مطالبے پر ضلعی ہیڈکوارٹر کے ہسپتال میں سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد دو سے چار کر دی گئی ہے۔
ادھر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اغوا کیے جانے والے ڈاکٹروں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔
ڈاکٹرز کی بازیابی کے لیے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے شوکت علی یوسفزئی نے کہا کہ اس سلسلے میں جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
ابھی تک کسی نے واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ واقعہ کی وجہ سے مقامی لوگوں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
خیال رہے کہ چند ماہ سے شمالی وزیرستان کے بعد خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع بالخصوص قبائلی اضلاع میں تشدد، عسکریت پسندی اور اغوا کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔