واشنگٹن (ڈیلی اردو) سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا نے اپنے فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کردیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے بتایا کہ فوجیوں کی تعیناتی دفاعی نوعیت کی ہوگی تاہم ابھی بھیجے جانے والے فوجی دستوں کی تعداد کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی فوجی حکام نے سعودی عرب میں فوجیں بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مدد کی درخواست کی تھی، افواج فضائی اور میزائل ڈیفنس میں بہتری لائیں گی اور امریکا دونوں اقوام کے لیے فوجی سازو سامان کی ترسیل تیز کرے گا۔
یہ اعلان امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ جمعے کے روز کیا۔
اس موقع پر مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس حوالے سے مدد کی درخواست کی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان فورسز کی مدد سے دونوں ملکوں کے فضائی اور میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور امریکہ انھیں ’دفاعی سامان فراہم کرنے میں تیزی‘ لائے گا۔
جنرل ڈنفورڈ نے فوجوں کی تعیناتی کو ’معتدل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں ہو گی۔ تاہم انھوں نے فورسز کی قسم سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق جب صحافیوں نے مارک ایسپر سے سوال کیا کہ کیا ایران پر فضائی حملے اب بھی زیرِ غور ہیں تو وزیر دفاع نے جواب دیا کہ ’ہم ابھی اس حد تک نہیں پہنچے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے، یمن کے حوثی باغیوں نے آئل تنصیبات پر میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی مگر سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے اس کا الزام ایران پر لگایا گیا ہے تاہم ایران نے الزام کو مسترد کیا ہے۔
سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکی صدر نے ایران پر انتہائی سخت پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا جب کہ انہوں نےاشارہ دیا کہ وہ فوجی تصادم نہیں چاہتے تھے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نئی پابندیوں میں ایران کے مرکزی بینک اور اس کی سلامتی کے فنڈز کو فوکس کریں گے۔