کراچی (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ادارے حدود سے تجاوز کریں تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والوں پر آئین کی پاسداری لازم ہے اور ہم ہر اس شخص کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں، جس نے آئین کے برعکس کوئی کام کرنا چاہا ہو۔
کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے 72 سال پہلے آزادی حاصل کی، نہ کوئی جنگ لڑی نہ کسی عسکری قوت نے ہمیں ایک آزاد ملک مہیا کیا بلکہ یہ ایک سوچ تھی، ایک نظریہ تھا اور اسی سوچ اور نظریے پر یقین رکھنے والوں نے دوسروں کو قائل کیا اور ناممکن ممکن میں تبدیل ہوگیا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کو ایک معجزہ ہی سمجھیں اور اسی کو برقرار اور محفوظ رکھنے کے لیے عوام نے ایک طریقہ کار مہیا کیا جسے ہم آئین کہتے ہیں اور اس کا پورا نام آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
آئین پاکستان پر ہی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کا آغاز ایک مختصر تمہید سے ہوتا ہے جس میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ عوام نے یہ آزاد ملک حاصل کیا جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا، اس کے ساتھ ہی آئین کی تمہید یہ کہتی ہے کہ جمہوریت کو قائم رکھنا ایک فریضہ ہے اور یہ فریضہ یقین دلاتا ہے کہ عوام ظلم و ستم سے محفوظ رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی شخص یا ادارہ بنیادی حقوق سے تجاوز کرے تو عدلیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اسے روکے، عدلیہ آئین پاکستان کا تیسرا ستون ہے اور وہ آئین و قانون کی تشریح کرتی ہے جبکہ عدلیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر شخص اور ادارہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں کیونکہ تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جب ادارے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہیں تو ناصرف لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ ملک کمزور ہوتا ہے اور ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم مغربی پاکستان کو اب پاکستان کہتے ہیں مگر حقیقتاً یہ نصف پاکستان ہے، کیا ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 1971 میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمٰن پر مشتمل کمیشن مقرر کیا تاکہ وہ معلوم کریں کہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ہم آدھا ملک کھو بیٹھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج 47 برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ شائع نہ کی گئی۔اپنے ادارے سے متعلق جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کریں، ادارے اور ملک تب ہی مضبوط ہوتے ہیں جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور آئندہ وہ غلطیاں نہیں دہراتے، کسی اور ادارے پر انگلی اٹھانے سے قبل میں اپنے ادارے کی بات کروں گا۔
اس دوران انہوں نے اپنی بات کی وضاحت چند مثالوں سے دیتے ہوئے کہا کہ وفاق اور چاروں صوبوں کی پارلیمان نے موبائل فون پر ٹیکس لگائے مگر نامعلوم شکایت پر عدالت عظمیٰ نے شق (3) 184 کو استعمال کرتے ہوئے ایک حکم امتناع کے ذریعے 6 مختلف ٹیکسز کو معطل کردیا۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب حتمی طور پر یہ کیس سنا گیا تو فیصلہ ہوا کہ ایسا حکم امتناع صادر کرنے کا جواز نہ تھا کیونکہ ٹیکسز بنیادی حقوق میں شامل نہیں کیے گئے ہیں لہٰذا ان کو عائد کرنے پر بھی عدالت عظمیٰ شق (3) 184 کے تحت غور نہیں کرسکتی تھی، تاہم جس مدت تک یہ 6 ٹیکسز معطل رہے اس عرصے میں ایک سو ارب روپے کا نقصان ہوا، یہ رقم اب اکٹھی نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس پر کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں ہر طرح کی خبریں شائع و نشر کرنے پر قدغن ہے، جس کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی نامور صحافی اب ٹیلی ویژن پر نظر نہیں آتے، کیا کسی کو حق ہے کہ وہ سینسر شپ کرکے کسی دوسرے کی رائے پر پابندی لگائے؟
انہوں نے کہا کہ آئین کی شق 19 میں موجود ہے کہ چند معاملات کے علاوہ ہر شہری کو آزاد اظہار رائے کا بنیادی حق حاصل ہے اور اس بات پر بالکل قدغن نہیں لگائی جاسکتی کہ وہ بیانیہ جو کسی کو ناپسند ہو وہ نشر یا شائع نہ ہو، کوئی بھی ادارہ اپنی پسند کے مطابق یہ حکم نہیں دے سکتا کہ کوئی خبر شائع کی جائے یا نہ کی جائے اور نہ ہی کسی ٹیلی ویژن یا اخبار پر بندش لگائی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کو ملازمت دیں یا ملازمت سے برطرف کریں، اس کے علاوہ حکومت کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری اشتہار اپنی مرضی کے چینلز اور اخبارات کو ہی دیں اور اس طرح ان کا معاشی استحصال کریں۔
انہوں نے کہا کہ نہ ہی یہ اختیار ہے کہ کسی کو مجبور کریں کہ وہ حکومت کے خلاف یا کسی حکومتی ادارے یا کسی حکومتی شخص پر تنقید نہ کریں یا کسی صحافی کو برطرف کریں یا ان کے پرواگرام پر بندش لگائیں یا ان کے اداریوں پر پابندی لگائیں، یہ سارے ہتھکنڈے نہ صرف غیرقانونی ہیں بلکہ غیر آئینی بھی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک اور طرز عمل جس سے میں بخوبی واقف ہوں وہ یہ کہ کبھی کچھ چینلز ٹی وی پر نظر نہیں آتے کیونکہ کچھ علاقوں میں کیبل آپریٹرز کو فون کرکے حکم دیا گیا ہوتا ہے کہ ان کی نشریات نہ دکھائیں۔
جسٹس فائز نے کہا کہ جب خوف اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع نہ کریں تو یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ بنیادی حقوق بھرپور طریقے سے رائج ہیں، لہٰذا جمہورت کو مستحکم کرنے کے لیے جس طرح آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے اسی طرح آزاد میڈیا بھی ضروری ہے۔
جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ آئین پاکستان کی شق 5 کے مطابق ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ آئین و قانون پر عمل کرے جبکہ شق 6 کہتی ہے کہ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت یا دیگر غیرآئینی ذریعے سے آئین کی تنسیخ کرے یا اس کی کوشش کرے، تخریب کرے یا اس کی سازش کرے تو وہ ملک کے خلاف سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وہ شخصیات جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ دی جاتی ہے اور جو اپنے عہدوں پر فائز ہونے سے قبل حلف اٹھاتے ہیں ان پر آئین کی پاسداری لازم ہے، مجھ سمیت صدر پاکستان، وزیراعظم، وزرا اور افواج پاکستان کا ہر افسر اور سپاہی ہم سب پر آئین کی پاسداری کرنا اور بھی لازم ہے کیونکہ ہم عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور یقیناً رزق حلال ہی حاصل کرنا چاہیں گے۔
اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم زندہ قوم رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ہر وہ طریقہ اپنائیں جو آئینی و قانونی ہو اور ہر اس شخص کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں جس نے آئین کے برعکس کوئی کام کرنا چاہا ہو۔