بیجنگ (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) طالبان کے آٹھ رکنی وفد نے چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان سے چینی دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات کی جس میں امریکا کے ساتھ امن مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔
خیال رہے کہ چینی نمائندے سے یہ اہم ملاقات امریکا اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی ایک ملاقات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آخری لمحات میں منسوخ کیے جانے کے بعد ہوئی۔
اس سے قبل اس بات کی امید ظاہر کی جارہی تھی کہ امریکا طالبان مذاکرات میں دونوں فریقین افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کسی سمجھوتے پر راضی ہوجائیں گے۔
اس بارے میں قطر کے دارالحکومت میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مذکورہ ملاقات کے لیے طالبان وفد بیجنگ آیا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ زی جون سے ملاقات کی۔
انہوں نے بتایا کہ چینی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان سمجھوتہ افغان مسئلے کے پر امن حل کے لیے ایک اچھا فریم ورک ہے اور وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔
اس ضمن میں طالبان وفد کی نمائندگی کرنے والے ملا برادر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بات چیت کی اور ایک ’جامع معاہدے‘ تک پہنچ گئے۔
اب اگر امریکی صدر اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتے اور اپنا وعدہ توڑتے ہیں تو افغانستان میں کسی قسم کے خونریزی کے ذمہ دار وہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ طالبان کے امن مذاکرات کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے چند روز قبل افغانستان میں امن کے لیے صرف مذاکرات کو ہی واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکی صدرمستقبل میں امن مذاکرات دوبارہ بحال کرنا چاہیں تو ان کے دروازے کھلے ہیں۔
یاد رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے بعد تقریباً معاملات طے پاچکے تھے جس کی تصدیق زلمے خلیل زاد کی جانب سے بھی کی گئی تھی تاہم کابل دھماکوں کے بعد امریکی صدر نے طالبان سے مذاکرات کا عمل منسوخ کردیا۔