بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے مختلف شہروں میں گذشتہ روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد امن وامان کو قابو میں رکھنے کے لیے ناصریہ شہر کو فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں 50 سے زائد سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
#UPDATE Popular protests multiplied across Iraq as thousands of demonstrators braved live fire and tear gas in rallies that have left nine dead in 24 hours.
The demonstrations led authorities to seal off the Green Zone in central Baghdad https://t.co/1CNCOJYU4H pic.twitter.com/VQvzJbAhzr
— AFP News Agency (@AFP) October 2, 2019
رپورٹس کے مطابق بغداد اور دوسرے عراقے شہریوں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران شہریوں نے کرپشن کے خلاف اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حق میں نعرے لگائے۔
مظاہرین نے بغداد کے قلعہ نما گرین زون کی جانب جانے والے ایک پُل کو عبور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران میں پولیس نے ان پر گولیاں چلائی ہیں۔ گرین زون میں عراقی حکومت کے دفاتر، سرکاری عمارتیں اور غیرملکی سفارت خانے واقع ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے گرین زون کی جانب جانے والی شاہراہوں کو بند کر رکھا تھا۔
جنوبی شہر ناصریہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلا دی ہے جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔
بغداد میں پولیس اور فوج نے آج بھی مظاہرین پربراہ راست فائرنگ کی ہے اور انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ ناصریہ کے علاوہ دوسرے جنوبی شہروں میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور روزگار اور بنیادی خدمات کی عدم دستیابی سے نالاں شہری اب ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
ناصریہ میں مظاہرین نے بلدیہ کی عمارت کے نزدیک آگ لگا دی۔ الکوت میں سیکڑوں افراد نے بلدیہ کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی اور ہلہ اور دیوانیہ میں سیکڑوں افراد نے احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔ نجف اشرف میں مظاہرین کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم رہی ہے۔
تیل کی دولت سے مالامال جنوبی شہر بصرہ میں ہزاروں افراد نے صوبائی انتظامیہ کی عمارت کے سامنے اکٹھے ہوکر احتجاج کیا ہے لیکن ان کی ریلی پُرامن تھی۔ سماوا میں بھی پُرامن مظاہرے ہوئے ہیں۔ شمالی شہروں کرکوک، تکریت اور مشرقی صوبہ دیالا سے بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں لیکن ان میں شرکاء کی تعداد کم رہی ہے۔
عراقی حکومت نے بغداد میں احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
منگل کے روز عراقی حکومت کے مشترکہ بیان میں بیان میں کہا کہ بغداد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تین افراد جاں بحق اور سیکیورٹی فورسز کے 40 اہلکاروں سمیت 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
بیان میں شہریوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مظاہروں کی آڑ میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں گے۔
تازہ ترین پیشرفت کے مطابق الحکمہ تنظیم کے سربراہ عمار الحکیم نے بغداد میں مظاہروں کے بعد پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
عراق کے سابق وزیر اعظم حیدر العبادی کی سربراہی میں قائم ‘النصر’ اتحاد نے ایک بیان پرامن مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔
العبادی نے حکومت سے انصاف تک رسائی کے لیے مکمل تحقیقات کا آغاز کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ’ہم سلامتی ، امن اور سرکاری و نجی املاک کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہم عوامی مظاہروں کو سیاسی رنگ دینےکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ مظاہروں کو کسی مخصوجماعت کے مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مظاہرے کرنے والے رہ نمائوں سے مل کر ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرے۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے نے گذشتہ دو روز کے دوران میں پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد عراق کے تمام فریقوں سے صبر وتحمل کی اپیل کی ہے اور انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے بدھ کو ٹویٹر پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’پُرامن مظاہرے کا حق تمام جمہوریتوں میں بنیادی حقوق میں سے ہے لیکن مظاہروں کے دوران میں کسی بھی فریق کی جانب سے تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
عراق میں اربابِ اقتدار واختیار کی بدعنوانیوں، بے روزگاری کی شرح میں اضافے اور شہری خدمات کے پست معیار کے خلاف منگل سے جاری احتجاجی مظاہروں کے بعد امریکی سفارت خانے کا یہ پہلا بیان ہے۔