بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان منگل سے شروع ہونے والی جھڑپوں اور مظاہروں میں اب تک 105 افراد جاں بحق اور 6000 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عراق کی وزارتِ داخلہ نے گذشتہ چھے روز کے دوران میں پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں 104 افراد کی جاں بحق ہونے کی اور 6,000 سے زیادہ کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل سعد معن نے اتوار کو سرکاری ٹی وی پر ایک بیان میں کہا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں سکیورٹی فورسز کے 8 اہلکار بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مشتعل مظاہرین نے 51 سرکاری عمارتوں اور 8 سیاسی جماعتوں کے ہیڈکوارٹرز کو نذرآتش کردیا تھا۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں گذشتہ منگل کے روز شہریوں نے بے روزگاری، سرکاری شہری خدمات کے پست معیار اور ارباب اقتدار و اختیار کی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے دوسرے شہروں تک بھی پھیل گئے تھے۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر نوجوان شریک تھے۔
عراقی سکیورٹی فورسز نے اس عوامی احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے بغداد اور دوسرے شہروں میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ تر اموات ہوئی ہیں۔ طبی حکام کے مطابق مظاہرین کو سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
مظاہرین عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے ان کے انتخابی وعدے کے مطابق وسیع تراقتصادی اور انتظامی اصلاحات کا مطالبہ کررہے تھے۔
مظاہرین کے ان مطالبات کے ردعمل میں وزیراعظم نے ہفتے کی شب سلسلہ وار اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔ ان کے تحت بے روزگار نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور کم آمدن والے افراد کو ملک بھر میں اقامتی اراضی مہیا کی جائے گی۔