میڈرڈ (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) اسپین کی حکومت کی جانب سے ترکی کے لیے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل ناروے، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ اور فن لینڈ بھی مماثل فیصلہ کر چکے ہیں۔
اسپین کے شاہی محل کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ “اسپین یورپی یونین میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ رابطہ کاری سے عسکری ساز و سامان کی برآمد کے نئے اجازت ناموں کے اجرا کو مسترد کرتا ہے جو شام میں حالیہ فوجی آپریشن میں استعمال کیا جا سکتا ہو”۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی ان اقسام کے ہتھیاروں تک محدود ہے جو شام میں کردوں کے خلاف حملے میں استعمال میں آ سکتے ہیں۔ یہ پابندی حالیہ نافذ العمل سمجھوتوں کو متاثر نہیں کرے گی۔ مثلا ایئربسA400M ٹرانسپورٹ طیارے اورLHD Anadolu حملہ آور بحری جہاز وغیرہ۔
سال 2018 کی پہلی شش ماہی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسپین نے ترکی کو 16.25 کروڑ یورو کا دفاعی اسلحہ فروخت کیا۔ جرمنی ، فرانس اور سعودی عرب کے بعد ترکی ،،، اسپین کی عسکری صنعت کا چوتھا بڑا خریدار رہا۔
دوسری جانب یورپی یونین کے وزراء خارجہ نے پیر کے روز لیگزمبرگ میں ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے معاملے پر بحث کی۔ آخرکار اس کا فیصلہ انفرادی طور پر ہر ملک پر چھوڑ دیا گیا۔ اس حوالے سے یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کی پاسداری پر زور دیا گیا جو عسکری ساز و سامان کی ایسی فروخت کو ممنوع قرار دیتے ہیں جو علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اسپین کے شاہی محل کی جانب سے جاری حالیہ بیان میں شام میں ترکی کی مداخلت کی “مذمت” کی گئی … تاہم پیٹریاٹ میزائلوں کی اس بیٹری کے مستقبل پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا گیا جس کے ساتھ اسپین کے 150 فوجیوں کا یونٹ موجود ہے۔ اس یونٹ کو اسپین نے ترکی اور شام کے درمیان سرحد پر تعینات کیا ہے۔ اس حوالے سے اشارتا محض یہ کہا گیا کہ مذکورہ یونٹ کی موجودگی نیٹو اتحاد کی اس کارروائی کا حصہ ہے جو وہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کر رہا ہے۔