بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے دارالحکومت بغداد میں حکومت کے خلاف تازہ مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں 40 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ درجنوں افراد ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق دارالحکومت بغداد میں جاں بحق ہونے والے دو افراد سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس کے شیل کا نشانہ بنے۔ ان مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے افراد کی نصف تعداد ملیشیا گروپوں اور حکومت کے دفاتر پر حملہ کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا ہے جس میں مظاہرین کی جانب سے کرپشن، بے روزگاری کے خاتمے اور سیاسی نظام کو مکمل طور پر درست کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
At least 40 killed as fresh protests engulf Iraq https://t.co/sTyrDqc5fm pic.twitter.com/Cxi1KGr2sW
— Reuters U.S. News (@ReutersUS) October 26, 2019
سماجی کارکنان کی جانب سے عراقی عوام پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمعہ کو وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے اقتدار کو ایک سال مکمل ہونے پر سڑکوں پر نکلیں۔
تاہم احتجاجی ریلیوں کی شروعات اس سے قبل ہی ہو گئی اور جمعرات کی شام کو ہی سیکڑوں افراد معروف تحریر اسکوائر پر جمع ہو گئے۔
جمعہ کے روز متعدد افراد پُل عبور کر کے گرین زون کے قریب پہنچے جہاں کئی سرکاری دفاتر اور غیر ملکی سفارت خانے موجود ہیں۔
تاہم سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
عراقی انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق 21 مظاہرین جاں بحق ہوئے اور ابتدائی معلومات کے مطابق ان مظاہرین کے سَر یا چہرے پر آنسو گیس کنستر لگے۔’
انہوں نے کہا سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں لگ بھگ 100 افراد زخمی بھی ہوئے تاہم مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے براہ راست کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔
عراق کے جنوبی شہروں میں بھی ہزاروں افراد جمع ہوئے اور حکومت کے گھر جانے تک سڑکوں پر رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ جنوبی صوبے ذی قار میں مظاہرین نے سرکاری ہیڈ کوارٹرز کو نذر آتش کردیا۔ دیگر شہروں میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کے دفاتر کو بھی آگ لگائی گئی۔
واضح رہے کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق عراق میں ہر پانچ میں سے ایک شہری غربت کا شکار ہے اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 25 فیصد تک جاپہنچی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں عراق کو دنیا کا 12واں سب سے بدعنوان ملک قرار دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ عراق میں حکومت کی ناقص پالیسیوں، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف یکم اکتوبر کو شدید احتجاج شروع ہوا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کر گیا تھا۔
ایک سال قبل حکومت سنبھالنے والے وزیر اعظم عادل المہدی کو مختصر عرصے میں ہی عوام کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہے اور انہیں سنبھالنا مشکل تر ہو چکا ہے، حالانکہ انہیں اصلاحات کی یقین دہانی پر متفقہ طور پر وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔