اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست پر سماعت کی جس کے بعد انسانی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں میاں نوازشریف کی سزا معطلی کی درخواست کو آج ہی سننے کی استدعا کی گئی تھی۔
شہبازشریف نے 11 رکنی اسپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو بھی اپنی درخواست کا حصہ بنایا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی ڈویژنل بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت 3 بار وقفہ کیا گیا جس کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عبوری ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور کی۔
عدالت نے عبوری ضمانت کے لیے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا اور ان کی ضمانت منگل تک کے لیے منظور کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کواختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے لہٰذا ایسی صورت میں یہ معاملات عدالت میں نہیں آنے چاہئیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ ایسی کیا عجلت ہوئی کہ یہ جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی، اس پر شہبازشریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل کے بعد ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔
عدالت نے دوران سماعت اینکر پرسنز کو روسٹرم پر بلالیا
نوازشریف کی سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اینکرز پرسنز کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بڑی معذرت سے آپ کو بلایا ہے، عدالت نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، جب ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پر آتی ہے، آپ تمام اینکر ہمارے لیے قابل احترام ہیں، کیس بعد میں عدالت آتا ہے لیکن میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے جس کا دباؤ عدالت پر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججز سے متعلق سوشل میڈیا پران کا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے، سمیع ابراہیم نے وثوق سے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے تو کیا وزیراعظم اور عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہیں؟ ہائیکورٹ کے کسی جج تک رسائی نہیں،ایسی باتیں انہیں متنازع بناتی ہیں لہٰذا آپ اس حوالے سے جواب جمع کرا دیں، ہمیں ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ آج کی سماعت کا کیا آرڈر ہو گا۔
دوران سماعت چئیرمین پیمرا کی جانب سے ان کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں، انجوائے کرتے ہوں گےکہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں؟ اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے، آپ بتائیں کہ کیا پیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے؟
اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ قرآن پڑھا ہے؟ اس میں حکم ہے کہ سنی سنائی بات آگے نہ پھیلا دیں، یہ بات پیمرا کے بارے میں کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کل ضمانت دی کیا انہوں نے ڈیل کرلی؟ ہمارے پاس اینکرز کے پروگرام کے ٹرانسکرپٹ کے ساتھ رپورٹ آئی تھی۔ عدالت نے طلب کیے گئے تمام اینکرز سے تحریری جواب طلب کر لیا۔
اس کے بعد عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو روسٹرم پربلایا گیا اور انہیں جیل قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہیے، یہ حکومت کا اختیار ہے، آپ نے پتہ کیا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟ آپ نے میڈیکل بورڈ مقرر کیا جس نے کہا کہ نوازشریف کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں بیماری جان لیوا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے ہدایات لےکر عدالت کو بتائیں، چیئرمین نیب سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کرائیں گے؟
اعلیٰ عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے کو بھی ہدایت کی کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی درخواست پرکیا کہتے ہیں؟ اس پر عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے میاں نوازشریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی ہے تاہم ان کی رہائی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی تک ناممکن ہے۔
معلوم رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔
پس منظر
نیب لاہور کی حراست میں میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزار رہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے 3 میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے جب کہ ان کے علاج و معالجے کے لیے ایک ڈاکٹر اسلام آباد اور ایک کراچی سے بلایا گیا۔
سابق وزیراعظم کے طبی معائنے کے لیے 11 رکنی اسپیشل میڈیکل بورڈ بنایا گیا ہے جس کے سربراہ سمز کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز ہیں۔ دیگر ارکان میں ڈاکٹر کامران خالد، ڈاکٹر عارف ندیم، ڈاکٹر فائزہ بشیر، ڈاکٹر خدیجہ عرفان اور ڈاکٹر ثوبیہ قاضی شامل ہیں۔ میڈیکل بورڈ سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ، گیسٹرو انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اسپیشلسٹ اور فزیشن پر مشتمل ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کی حراست میں ہیں جب کہ احتساب عدالت کی جانب سے انہیں العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔