دوحہ ( ویب ڈیسک) ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی متحدہ عرب امارات امریکی ساختہ ہتھیاروں کو یمن میں عسکریت پسندوں کو فراہم کر رہے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای مل کر امریکی ساختہ ہتھیاروں کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپس اور سلفی ملیشیا کو منتقل کررہا ہے، جس کے کمانڈر یمن میں داعش کے لیے کام کرچکے ہیں۔
تحقیقات میں بتایا گیا کہ یہ ہتھیار یمن مین حوثی باغیوں کے ہاتھوں میں بھی جانے کا راستہ بن رہے ہیں۔
خیال رہے کہ حوثی باغی ملک میں کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اتحادی فوج کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات فوجی اتحاد کے طور پر 2015 میں یمن جنگ میں داخل ہوئے تھے، جس کا مقصد صدر عبدربہ منصور ہادی کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کی بحالی کی کوشش کرنا تھا۔
منصور ہادی کے حمایتیوں اور حوثیوں کے وفاداروں کے درمیان خانہ جنگی کے بعد دونوں خلیجی ریاستوں کی جانب سے عبدربہ منصور کی حکومت کی بحالی چاہی تھی۔
تاہم یہ تحقیقات کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی ہے، سی این این کے مطابق مقامی کمانڈرز اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اتحادی امریکی ساختہ ان ہتھیاروں کو ‘ملیشیا یا قبائلیوں کی وفاداری کو خریدنے کے لیے بطور کرنسی استعمال کرنے، منتخب کردہ مسلح کرداروں کو تقویت دینے اور پیچیدہ سیاسی منظرنامے پر اثرا انداز ہونے کے لیے’ استعمال کرتے ہیں۔
پینٹاگون کے مطابق خلیجی بادشاہت واشنگٹن کے ساتھ اپنے ہتھیاروں کے معاہدے کی شرائط کو توڑ رہی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے سی این این کو بتایا کہ اس معاملے پر ایک تفتیش جاری ہے۔
دوسری جانب تعز شہر کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ القاعدہ نے ‘پرو سعودی ملیشیاز کے ساتھ فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جعلی اتحاد بنایا تھا’۔
تحقیقات میں بتایا گیا کہ ابو العباس بریگیڈ نے امریکا کی تیار کردہ اوشکوش بکتر بند گاڑیاں حاصل کی تھی، جس کا 2015 میں شہر میں طاقت کے طور پر مظاہرہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے 2017 میں ملیشیا کے بانی ابو العباس پر مبینہ طور پر القاعدہ اور داعش کے یمنی گروہ کی مالی مدد کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
تاہم دسمبر میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ابو العباس کا کہنا تھا کہ ‘اتحادی اب بھی میری مدد کر رہے ہیں، اگر میں واقعی میں دہشت گرد ہوتا تو وہ سوالات کرنے کے لیے مجھے یہاں سے اٹھا لیتے’۔
سی این این کے مطابق یہ گروپ اب بھی سعودی اتحادی حمایت سے لطف اندوز ہو رہا اور اسے یمنی فوج کی 35 ویں بریگیڈ کی حمایت میں شامل کیا گیا تھا۔
ادھر پینٹاگون کے ترجمان جوہنی مائیکل نے بتایا کہ ‘امریکا نے ریاست سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کو کسی بھی سامان کی یمن میں موجود عناصر کو دوبارہ منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی’۔
رپورٹ کے مطابق امریکی ساختہ ہتھیار حوثی باغیوں کے ہاتھوں میں بھی دیکھے گئے۔
ستمبر 2017 میں حوثیوں کے ایک ٹی وی چینل نے سینئر حوثی لیڈر محمد علی حوثی کی تصاویر نشر کی تھیں، جن میں انہیں دارالحکومت صنعا میں امریکی ساختہ مائن ریزسٹنٹ امبش پروٹیکٹڈ وہیکل (ایم آر اے پی) کے پہیے کے پیچھے بیٹھا ہوا دیکھا گیا تھا جبکہ اس فوٹیج کے پس منظر میں لوگ ‘امریکا کی موت’ کے نعرے لگا رہے تھے۔
سی این این نے ایک اور ایسی تصویر حاصل کی جس میں گزشتہ برس حدیدہ میں ایک اور سینئر حوثی کے ہاتھ میں دوسری ایم آر اے پی کے سیریل نمبر نظر آرہے تھے۔
خیال رہے کہ یہ گاڑی 2014 میں متحدہ عرب امارات کو ڈھائی ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کا حصہ تھی۔
اس سربمہر دستاویز کے مطابق ‘اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وصول کنندہ ملک اس حساس ٹیکنالوجی کے لیے اسی حد تک تحفظ فراہم کرے گا’ جیسا امریکا کرتا ہے۔
ادھر حوثی سیاسی کونسل کے رکن حیرام الاسد نے سی این این کو اس بات کی تصدیق کی کہ ایم آر اے پیز اب بھی حوثیوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان رپورٹس کو مسترد کیا کہ یہ گاڑیاں ایرانی انٹیلی جنس کی جانب سے تحقیقات کر رہی تھیں۔
واضح رہے کہ امریکا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور یمن میں سعودی اتحاد میں جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اس کی حمایت بہت اہم ہے۔
یاد رہے کہ اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکئی برسوں کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تقریباً 110 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کا معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد ‘ایرانی دھمکیوں کے سامنے’ سیکیورٹی کو بہتر بنانا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر کے کہ 2015 سے جاری یمن جنگ میں سعودی اتحادی افواج متعدد بار حملہ کرچکی ہیں جس سے اب تک لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی سے انسانی بحران جنم پانے کا خدشہ ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائی کی ضرورت ہے۔