اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے جھوٹے گواہوں کےخلاف کارروائی کا آغاز کر دیا اور چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی محمد ارشد کو بائیس فروری کو طلب کرتے ہوئے کہا ارشدنے ٹرائل میں جھوٹا بیان دیا، کیوں نہ کارروائی کی جائے، رات کو تین بجے کا واقعہ ہے کسی نے لائٹ نہیں دیکھی، یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کو کیوں نظر نہیں آتا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کی ہدایت پر سپریم کورٹ کی جانب سے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کاآغاز کر دیا گیا اور جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی ارشد کو بائیس فروری کو طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا ساہیوال کے محمد ارشد نے ٹرائل میں جھوٹا بیان دیا، محمد ارشدکے خلاف جھوٹی گواہی پر کیوں نہ کارروائی کی جائے، سی پی او فیصل آباد جھوٹے گواہ محمد ارشدکی عدالت میں حاضری یقینی بنائیں۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ رات کو 3 بجے کا واقعہ ہے کسی نے لائٹ نہیں دیکھی، ٹرائل کورٹ کی ہمت ہے انہوں نے سزائے موت دی، کمال کیا ہائی کورٹ نے کہ عمر قید کی سزا سنائی، تمام گواہان کہہ رہے تھے انہوں نے فائر ہوتے نہیں دیکھا، یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کوکیوں نظر نہیں آتا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا 161 کے بیانات کے مطابق کوئی زخم نہیں، جو قومی رضاکار گواہ بنایا وہ پولیس کا گواہ ہے، 3 دن بعد میڈیکل ہوتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا جس طرح رضاکارانہ گواہ بنا، اسی طرح رضاکارانہ جیل بھی جانا چاہیے، اسی گواہ کی کہنی پر خراش آئی اور اسی زخم کو فائر آرم انجری کہہ دیا گیا، اسی رضاکار سے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا افتتاح کرتے ہیں، ٹرائل کورٹ نے جھوٹی گواہی پر سزائے موت دی اور ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی۔ بعد ازاں عدالت نے ملزم زوراور کو 7 سال بعد شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔
یاد رہے ایک قتل کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے ماتحت عدالتوں پر افسوس ہوتا ہے، معاملات صحیح طریقے سے دیکھیں تو سپریم کورٹ تک نہ آئیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے تھے کہ اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آ جائیں، اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیے گواہ بنو۔