تہران (ڈیلی اردو/ویب ڈیسک) ایران صدر کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے جنوبی حصے میں تقریباً 53 ارب بیرل خام تیل کا نیا ذخیرہ دریافت کرلیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکا نے ایران کی عالمی قوتوں سے گزشتہ سال کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوتے ہوئے اس پر پابندیاں عائد کی تھی۔
حسن روحانی نے صحرائی شہر یزد میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران کے جنوبی صوبے خوزستان میں یہ تیل کا نیا کنواں دریافت کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نئی دریافت کے بعد ایران کے 150 ارب بیرل کے ذخائر میں 53 ارب بیرلز کا اضافہ ہوا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں وائٹ ہاؤس کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی عائد کیے جانے کی وجہ سے ملک کے رضاکار اور انجینیئرز 53 ارب بیرلز کے ذخائر دریافت کرسکے ہیں’۔
اس موقع حسن روحانی نے امریکا کو للکارتے ہوئے کہا کہ میں وائٹ ہاؤس کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں جب امریکا نے ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی عائد کی تو ہمارے ملک کے انجینئرز اور مزدور 53 ارب بیرل تیل کی تلاش کیلئے تیار تھے۔
ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ادارے ‘فارس’ کے مطابق نیا دریافت شدہ ذخائر اس حالت میں ہیں کہ ان سے کم خرچ میں تیل نکالا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ملک کے علیحدہ معیار ہونے کی وجہ سے بتائے گئے اعداد و شمار میں فرق ہوسکتا ہے۔
ایران کے پاس دنیا کا چوتھا بڑا ثابت شدہ خام تیل کا ذخیرہ اور دنیا کا دوسرا بڑا قدرتی گیس کا ذخیرہ موجود ہے۔
اس نئے تیل کے ذخیرے کو شامل کرنے کے بعد ایران دنیا کا دوسرا بڑا تیل کا ذخیرہ رکھنے والا ملک بن سکتا ہے۔
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کی رپورٹ کے مطابق تیل کا نیا کنواں 2400 اسکوار کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہے جو تقریباً 80 میٹر تک گہرا بھی ہے۔
واضح رہے کہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کے بعد سے اس معاہدے میں شامل جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین سمیت دیگر ممالک اسے بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے ایسا کوئی ذریعہ ظاہر نہیں کیا ہے جس کے ذریعے ایران اپنا تیل بیرون ممالک کو فروخت کرسکے۔
عرب میڈیا کے مطابق ایران کے نئے تیل کے ذخائر کے اعلان پر عالمی ماہر کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے اعلان میں یہ نہیں بتایا کہ ان ذخائر سے تیل کی کتنی پیداوار کی جاسکتی ہے، یہ اعلان سیاسی سطح پر کیا گیا ہے اور اس حوالے سے ایران نے کوئی تکنیکی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔
امریکی پابندیوں کے بعد سے ایران نے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیئم کی افزودگی کی حد عبور کرنی شروع کردی ہے۔