اسلام آباد (ویب ڈیسک) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) ایکٹ اور آرڈیننس کیس سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ‘مجھے آج شدید بخار ہے، دلائل نہیں دے سکتا’، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پر ان سے 3 سوالات پوچھے تھے، وہ اپنے دلائل میں عدالتی سوالات کے جواب دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اہم اور حساس نوعیت کا کیس ہے اس لیے التوا کی درخواست نہیں کر رہا، آج عدالت دوسرے فریق کو سن لے تاکہ سماعت ملتوی نہ ہو۔
دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے اور آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ طلب کرنے پر فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔
انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہوگی اور فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 25ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا، وفاق نے 25 ویں ترمیم کے بعد کوئی قانون سازی بھی نہیں کی۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور صوبے دونوں کو قانون سازی کا اختیار ہے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج سے متعلق قانون سازی صوبے نہیں کر سکتے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کو حراست میں لینے کا اختیار آج بھی صوبوں کے پاس ہے جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین کریں گے پھر اگلی بات ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانونی سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245 کا تحفظ نہیں ملے گا، آرٹیکل 245 کا تحفظ نہ ہو تو عدالت عالیہ قانون کا جائزہ لے سکتی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے قانون صوبے بنا سکتے ہیں اور تفصیلی موقف صحت یاب ہوکر اپنے دلائل میں دوں گا۔’
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل نہیں دے سکتے تو آئے کیوں ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ نے جارحانہ ہونا ہے تو میں دلائل نہیں دے سکتا۔
اٹارنی جنرل کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک اختیار فوجی آپریشن دوسرا گرفتار افراد کے ٹرائل کا ہے، ٹرائل اور گرفتار افراد کے حوالے سے قانون صوبے ہی بنا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) قوانین کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کریں، آپ (اٹارنی جنرل) کب تک عدالت کو مطمئن کریں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید نے ریمارکس میں کہا کہ یہ انتہائی اہم، سنجیدہ اور قانون کی تاریخ کا معاملہ ہے، یہ کئی ہزار خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس اہم کیس کے لیے سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججز مل کر بیٹھے ہیں، وزارت قانون جا کر کھنگالیں، چیک کریں قوانین کیسے بنے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2019 میں ایک نیا قانون بنا دیا گیا جیسے پہلے کسی قانون کا وجود ہی نہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ 2019 سے پہلے بھی قوانین موجود تھے پھر ایسا کیوں ہوا؟
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ احتیاط سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ عموما ایسی مثال دی جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادروں کے اہلکاروں کے سروں سے فٹبال کھیلا جاتا ہے، ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے تو میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ کیا ہم آئین کے ساتھ فٹبال کھیلیں؟
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حراستی مرکز میں حراست میں رکھنے کا قانون بنانے سے پہلے کوئی سمری بنائی گئی تھی یا ایسے ہی قانون بنایا گیا؟ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اس قانون کی باقائدہ سمری بنائی گئی تھی۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں پیر (25 نومبر) تک کا وقت دیں کیونکہ ایڈووکیٹ جنرل پیر کو آئیں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو پیر اور منگل تک کا وقت دیتے ہیں تیاری کرکے آئیں ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں صوبائی بار بھی معاونت کے لیے تیار ہے اور اس کیس کو سنجیدگی سے لیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ فاٹا اور پاٹا کی زمینی حدود صوبے کے حوالے کی گئیں لیکن ان کے انتظامی امور کیسے چلائے جائیں گے؟ یہ سوچا نہیں گیا۔
انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ آئین کے تحت کسی بھی گرفتار شخص کو مختصر عرصے تک حراست میں رکھا جاتا لیکن اس قانون کے تحت لا محدود مدت تک کے لیے حراست میں رکھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1973 کے آئین میں شہری کو اس کی عزت اور توقیر کا حق دیا گیا ہے، ایک عدالتی فیصلے میں ہے کہ کوئی شخص بڑا مجرم ہو تو بھی اس کو آئین کے مطابق اس کو عزت اور توقیر حاصل ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل کیس کی مکمل تیاری کے ساتھ آئیں ورنہ ازخود فیصلہ کریں گے اور کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔
17 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو فاٹا اور پاٹا میں امن اور حکومت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔
2011 میں صدر مملکت نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا، ان قوانین میں واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کی وجہ سے قانون کی ضرورت بڑھ گئی۔