اسلام آباد (ویب ڈیسک) بحریہ ٹان کے سربراہ ملک ریاض نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی، چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض پر فرد جرم لگ چکی ہے اور اب سزا ہونا باقی ہے،ہم اس کو قانون کے مطابق پرکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کیس میں التوا کی درخواست پر ریمارکس دیے کہ التوا صرف دو صورتوں میں ملے گا، ایک یہ کہ یا تو ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں ارسلان افتخار اور ملک ریاض بزنس ڈیل میں توہین عدالت کیس کی چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، ملک ریاض کے وکیل ڈاکٹر باسط نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس کیس نمٹایا جا چکا ہے اور جب فرد جرم لگی تھی تو عدالتی حکم نامہ نہیں آیا تھا تاہم عدالتی حکم نامے میں آیا تھا کہ ملک ریاض نے کبھی توہین عدالت نہیں کی اور ملک ریاض نے کہا تھا کہ ان کا معاملہ عدالت کے ساتھ نہیں ارسلان افتخار کے ساتھ ہے۔
چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض پر فرد جرم لگ چکی ہے اور اب سزا ہونا باقی ہے، ہم اس کو قانون کے مطابق پرکھیں گے۔ ڈاکٹر باسط نے ملک ریاض کی صحت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور ان کو کینسر ہے جب کہ عدالت میں مستند انگریز ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹس پیش کر دی گئی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک ریاض نے عدالتی حاضری سے استثنی کی کوئی درخواست نہیں دی، آپ مستند پاکستانی ڈاکٹروں کی رپورٹ پیش کر دیں وہ بھی قبول کرلیں گے، آپ بار بار انگریز ڈاکٹروں کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟
ملک ریاض کے وکیل نے کہا کہ ملک ریاض پروسٹیٹ کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ التوا صرف دو صورتوں میں ملے گا، ایک یہ کہ یا تو ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔
ڈاکٹر باسط نے موقف اختیار کیا کہ جناب کو بتائیں کہ ملک ریاض کی سرجری ہونی ہے اور کینسر جیسے موذی مرض نے ملک ریاض کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی متاثر کیا ہے، ایک اخبار نے ملک ریاض کی بیماری کے بارے میں خبر چھاپی ہے، میڈیا کو اس طرح کی خبریں چھاپنے سے منع کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کے لئے گواہوں کی فہرست سابق اٹارنی جنرل نے تیار کی تھی۔ جس میں ارسلان افتخار، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سید یوسف اور سلمان علی خان شامل ہیں جب کہ میڈیا سے تو آپ لوگوں کی بہت اچھی دوستی ہے اور آپ کی کوئی خبر بھی نہیں لگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پریس کانفرنس کی بنیاد پر کیس بنا تھا تو اس کی ویڈیو ہی کافی ہے اور صرف ویڈیو کی تصدیق کرنا ہوگی، ویڈیو میں پتہ چل جائے گا کہ بات کرنے کا انداز کیس تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم ملک ریاض کو 10 ہفتے حاضری سے استثنی دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر باسط نے عدالت کو آگا کیا کہ ملک ریاض نے فون کر کے کہا ہے میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں اور میں یہ داغ لے کر نہیں مرنا چاہتا کہ میں عدالت کی عزت نہیں کرتا، وہ اس وقت برطانیہ میں ہیں۔
ڈاکٹر باسط نے موقف اختیار کیا کہ ملک ریاض اس وقت برطانیہ میں ہیں تاہم ایک ہفتے میں ان کی غیر مشروط معافی جمع کرا دی جائے گی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کریں، کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔