سری نگر (ڈیلی اردو/اے پی پی) مقبوضہ کشمیر میںبھارت کی طرف سے وادی کشمیر اور جموں کے مختلف علاقوں میں مسلسل 112ویں روز بھی فوجی محاصرہ اور دیگر پابندیاں جاری اور انٹرنیٹ معطل رہا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت سخت پابندیاں عائد ہیں جبکہ دوکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔
سرینگر کی تاریخی جامع مسجدکے ارد گرد کے علاقوں میں 5 اگست سے جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی، خاص طور پر پابندیاں نافذ ہیں۔
جامع مسجد کے تمام دروازے بند ہیں اور مسجد کے باہراضافی بھارتی فورسز تعینات کی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ، ٹیکسٹ مسیجنگ اور پری پیڈ موبائل فونز کی مسلسل معطلی کی وجہ سے کشمیر یوں کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔
بھارتی پولیس نے سرینگر میں مولانا آزاد روڈ پر سب جیل قرار دیے جانے والے ایم ایل اے ہوسٹل میں چھاپہ مارا اور جیل میں نظر بند 33 سیاسی نظرب ندوں کے ساتھ بدسلوکی کی، نظر بند رہنمائوں کی بار بار تلاشی لی گئی۔
بھارتی فورسز نے ایک سیاسی رہنما کے دو سالہ بچے کی بھی تلاشی لی جس پر سب جیل میں نظر بندوں نے احتجاج کیا۔
کانگریس کے سینکڑوں کارکنوں نے جموں و کشمیر کی پرانی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کے لئے جموں میں احتجاجی مارچ کیا۔
مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بھارتی صدر رامناتھ کووند کے نام ایک یادداشت پیش کی جس میں کشمیر میں جمہوریت کے قتل کی مذمت کی گئی ہے۔
بھارت کے سابق ویر خزانہ یشونت سنہا کی قیادت میںبھارتی سول سوسائٹی گروپ کے پانچ رکنی وفد کو قابض انتظامیہ نے پلوامہ کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
وفد میں شامل گروپ کے رکن کپل کاک نے کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہونے کے بھارتی حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کی صورتحال معمول کے مطابق نہیں ہے۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے عالمی مداخلت کی پالیسی کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرنئے انتخابات کے نتیجے میں بورس جانسن کی جگہ جیرمی کوربن برطانیہ کے وزیراعظم بن جاتے ہیں تو مسئلہ کشمیر پر برطانیہ اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔