پشاور (ڈیلی اردو) یونیورسٹی کیمپس پشاور کے ہاسٹل میں میڈیکل کالج کے سال آخر کے طالبعلم کی خودکشی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے متوفی کے کمرہ سے ایک خط بھی ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ’’میں جوان ہوں، میرے اعضاء عطیہ کر دیئے جائیں‘‘، پولیس نے پوسٹ مارٹم کے بعد نعش ورثاء کے حوالے کردی ہے اور مقدمہ درج کر کے مختلف ذاویوں سے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے زیر انتظام سینا ہال ہاسٹل کے وارڈن ڈاکٹر جمیل نے کیمپس پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ شب دو طالب علم اس کے پاس آئے اور کہا کہ انہوں نے کمرہ نمبر 252 جس میں ان کا ساتھی تسنیم انجم ساکن مردان رہائش پذیر ہے کا دروازہ کئی بار کھٹکھٹایا مگر اندر سے کوئی رسپانس نہیں آرہا اُنہیں شک ہے کہ تسنیم کو کچھ ہونہ گیا ہو، جس کے بعد وہ طلباء اور اپنے سٹاف کے چند ساتھیوں کے ہمراہ مذکورہ کمرہ میں گیا تو کمرے میں اندھیرا تھا اور دروازہ اور کھڑکیاں اندر سے بند تھی ۔
انہوں نے ایگزاسٹ کے ذریعے موبائل فون کی روشنی میں اندر جھانکا تو دیکھا کہ تسنیم انجم پنکھے سے لٹکا ہوا ہے، وارڈن نے بتایا کہ واقعے کے بعد انہوں نے ڈین اور دیگر افسران سمیت کیمپس پولیس کو اطلاع کردی جنہوں نے موقع پر پہنچ کر دروازہ توڑ دیا اور نعش کو پنکھے سے اتار کر مردہ خانہ منتقل کردیا۔ یونیورسٹی کے ڈین کا کہنا ہے کہ مذکورہ طالبعلم کی خودکشی کی وجہ ذہنی تناؤ لگتی ہے تاہم کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ تسنیم کے کمرے سے ایک تحریر بھی ملی ہے جس میں لکھا تھا کہ ’’میں جوان ہوں، میرے اعضا عطیہ کئے جائیں‘‘، تحریر کے آخر میں Smile لکھا گیا ہے اور ساتھ میں ایک کارٹون بھی بنایا ہے جو ہنستے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ پولیس کے مطابق تسنیم کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اسے کوئی نفسیاتی مسئلہ درپیش نہیں تھا جبکہ تسنیم کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کا فرانزک معائنہ کیا جا رہا ہے تاہم فائنل انٹرنل امتحان میں کم نمبرلینا بھی خودکشی کی وجہ ہوسکتی ہے اور اِس پہلو کو بھی تفتیش کے دوران جھانچا جائے گا۔