اسلام آباد (ڈیلی اردو/این این آئی) فاٹا پاٹا ایکٹ، ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کیس میں سپریم کورٹ نے سابق قبائلی علاقوں کے فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کی تفصیلات طلب کرلیں جبکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ہر زیرحراست شہری کیلئے فکرمند ہیں
آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کے ساتھ آئیں اور عدالت کو مطمئن کریں، جواب نہ ملنے کی صورت میں فیصلہ دے دیں گے۔
بدھ کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم آرٹیکل 10 کو دیکھنا چاہیں گے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فاٹا پاٹا ایکٹ، ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کیس میں خلائی دشمن کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ خلائی دشمن پاکستان کے شہری ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ملوث ہونے کی صورت میں ایسے ہی کہلائیں گے ہمیں ان علاقوں میں دشمن کی جانب سے بیرونی مداخلت کا سامنا رہا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ان لوگوں کو حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جن کی شناخت نہ ہو؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ میں سمجھنا چاہتا ہوں کسی کو خلائی دشمن کیسے قرار دیا جاتا ہے؟
خلائی دشمن قرار دینے کے بعد کس قانون کے تحت کارروائی ہوتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملک دشمنوں سے نمٹنے کیلئے تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 لایا گیا۔ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے والا ہر شخص ملک دشمن ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو ملک دشمن قرار دینے سے پہلے تحقیقات کرنا ہوتی ہیں اور متعلقہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنا ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل بتائیں کہ اس ضمن میں کتنی تحقیقاتی رپورٹس عدالتوں میں جمع کرائی گئیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہر زیرحراست شہری کے حوالے سے فکرمند ہیں حکومت اس مقدمے میں عدالت کو مطمئن کرے، عدالت نے زیرحراست افراد کے مقدمات پر نظرثانی رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔