نئی دہلی (ڈیلی اردو) بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں بل کے خلاف احتجاج کرنے طلبہ پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 200 سے زائد طلبہ و طالبات زخمی ہو گئے ہیں۔
Vice-Chancellor of Jamia Millia Islamia in her pc:
"About 200 people were injured of which many were our students."
"Students endured mental trauma, college property heavily damaged."
"We will file an FIR against the 'illegal' entry of Delhi Police."#JamiaProtest
— Uzair Rizvi (@RizviUzair) December 16, 2019
غیر ملکی خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیرمسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔ متنازع بل پر مسلسل تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ گزشتہ روز دوپہر میں افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا۔
دوسری جانب طلباء نے موقف اپنایا ہے کہ پولیس کی جانب سے ان پر شیلنگ کی گئی اور ڈنڈے برسائے گئے جس کے بعد پر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا۔
Protest at Nadwa College Lucknow, they are protesting against CAB and in solidarity with #JamiaMillia and #AligarhMuslimUniversity .
This is the beginning of the revolution now! #JamiaProtest pic.twitter.com/5W7P0uAVcb
— Md Asif Khan (@imMAK02) December 16, 2019
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے متعدد طلبہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کی لائبریری میں آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کیپس کے تمام دروازوں کو سیل کرنے سے قبل مظاہرین پر تشدد بھی کیا۔
Today police entered, attacked the university that was built by freedom fighters & came up as a result of call to boycott govt (British) institutions. Students attacked in library, hostels, blood & gore all around. What we're witnessing in India. Think#JamiaMilliaIslamia #Jamia pic.twitter.com/m17MQA2XIu
— Shams Ur Rehman Alavi شمس (@indscribe) December 15, 2019
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی واقعے سے متعلق سماجی رابطوں کی سائٹ پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائل کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند ہوگئے۔
ادھر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
Watch | "They entered our hostels… Is this democracy? What wrong did we do? We were simply protesting": Student recounts police crackdown at #JamiaMillia university yesterday. #CitizenshipAct #DelhiProtests #Jamia pic.twitter.com/VgZIu09SnA
— NDTV (@ndtv) December 16, 2019
واقعے کے بارے میں اسپتال کے ترجمان فادر جیورج کا کہنا تھا کہ ہولی فیملی اسپتال سمیت قریبی اسپتالوں میں متعدد زخمی طلبہ کو لایا گیا، جہاں 26 طلبہ کو طبی امداد دی گئی۔
.@jamiamillia_'s library tells us about the story of the Sunday terror Evening.#JamiaProtest#JamiaMilliaIslamia#DelhiPolice #CAAProtests pic.twitter.com/bzI9eoHW0f
— Jamia Millia Islamia (@jamiamillia_) December 16, 2019
دہلی انتظامیہ نے نے جنوب مشرقی دہلی میں پیر کو تمام اسکول بن رکھنے کا اعلان دیا جبکہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہلے ہی ہفتے کو کہہ چکی تھی کہ وہ موسم سرما کی تعطیلات کیلئےقبل از وقت بند رہے گی، اس کے علاوہ اترپردیش کی شمالی ریاست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ اتوار کو پولیس کے ساتھ طلبہ کے تصادم کے بعد وہ تعطیلات کا اعلان جلد کررہے تھے۔
یاد رہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے اب تک 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔
شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔
اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔