لاپتہ افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا

راولپنڈی (ڈیلی اردو) لاپتا افراد کے مقدمات لڑنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو پیر کی شب راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اغوا کر لیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاپتہ ہونے والے انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے بیٹے حسنین انعام نے کہا ہے کہ والد کو رات گئے نامعلوم افراد نے رہائشگاہ عسکری 14 راولپنڈی سے اٹھایا۔

انعام الرحیم ایڈووکیٹ کو لے جانے والے افراد کی تعداد 8 سے 10 تھی، حسنین انعام کا مزید کہنا ہے کہ دروازے پر میرے دوست کا نام لیا گیا، والدہ نے دروازہ کھول دیا ،مسلح افراد نے میرے والد کو سوتے ہوئے جگایا اور ساتھ لے گئے۔

حسنین انعام نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کی شب ساڑھے بارہ بجے کے قریب اڈیالہ روڈ پر عسکری 14 میں واقع ان کی گھر کی گھنٹی بجی اور جب انھوں نے دروازہ کھولا تو سیاہ وردیوں میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد ان کے گھر میں گھس آئے۔

حسنین انعام کے مطابق یہ افراد ان کے والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ سیاہ رنگ کی ویگو گاڑی میں ڈال کر لے گئے اور انھیں دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں۔

ان کے مطابق کرنل انعام الرحیم کے اغوا کے مقدمے کے اندراج کے مورگاہ تھانے میں درخواست دے دی گئی ہے۔

کرنل انعام الرحیم نے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی تعیناتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور وہ اسی معاملے پر کام کر رہے تھے۔

آل پاکستان ایکس سروس مین لیگل فورم کے کنوینر انعام الرحیم ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔

حسنین انعام نے بتایا کہ سنہ 2012 میں بھی ان کے والد کو نامعلوم افراد کی جانب سے راولپنڈی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سنہ 2011 میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے کے ایک سینیئر افسر نے انھیں خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کے فوجی اور سول عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے سے باز نہ آنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔

کرنل انعام الرحیم کون ہیں؟

نومبر 2012 کے دوسرے ہفتے کی ایک سرد رات کو کچھ نامعلوم افراد نے اڈیالہ روڈ راولپنڈی میں وکیلوں کی مخصوص وردی میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر شخص پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے اس شخص کی گاڑی روک کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور موقع سے غائب ہو گئے۔ یہ زخمی شخص اٹھا اور اس نے اردگرد موجود خاموش تماشائی بنے افراد اور راہگیروں سے ان کی بےحسی کی شکایت کیے بغیر اپنے فون پر کچھ دوستوں کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں اطلاع دی اور بڑے اطمینان سے اپنا طبی معائنہ کروا کر قانون کے مطابق تھانہ آر اے بازار میں واقعے کی رپٹ درج کرادی۔

وکیلوں کی مخصوص وردی میں ملبوس اس شخص کا نام کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے اس وقت پاکستان کے طاقتورترین شخص جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رکھا تھا۔

اب تک کی معلوم تاریخ میں پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کےخلاف عدالت سے رجوع کرنے والے انعام الرحیم ہی غالبا پہلے وکیل ہیں۔ سات سال گذرنے کے باوجود راولپنڈی پولیس کرنل رئٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے ملزموں کا پتہ لگا سکی نہ ہی اس واقعے کے پس پردہ کردار کبھی سامنے آسکے۔

رواں سال نومبرمیں جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیربحث آیا تو کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے عدالت میں موجود تھے۔ دراصل اس کیس سے قبل بعض افراد نے ان سے مشاورت اور کیس داخل کرنے کی پیشکش بھی کی تھی مگر انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے بوجوہ اس کیس کا درخّواست گزار بننے سے انکار کردیا تھا۔ یہ انعام الرحیم ایڈووکیٹ ہی تھے جنہوں نے عدالت عظمیٰ کو پاکستان آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم کی تھی۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا تعلق پاک فوج کے 62ویں لانگ کورس سے ہے یہ وہی کورس ہے جس سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا بھی تعلق ہے۔

دراصل انعام الرحیم عسکری امورکے حوالے سے کم و بیش تمام اہم مقدمات میں کسی نہ کسی حوالے سے منظرعام پر آتے رہے ہیں ۔ لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے میں بھی انعام الرحیم پہلی صف میں نظر آتے ہیں۔ عسکری حوالے سے جو مقدمات کوئی عام وکیل لینے سے گریز کرتا ہے انعام الرحیم وہ مقدمات ہنس لے کر لیتے ہیں۔

انعام الرحیم پاک فوج کی لیگل برانچ جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں سے بھی منسلک رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوج میں رہتے ہوئے پرویزمشرف کے ناقدین میں شامل تھے۔

انھوں نے اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل کے عہدےسے آگے نہ جاسکے اور اکتوبر 2007 میں ریٹائر ہو گئے۔

2008 میں انعام الرحیم نے راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ ان دنوں راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزمان رانا فقیرو دیگر اپنے لیے وکیل تلاش کررہے تھے مگر کوئی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ انعام الرحیم آگے بڑھے اور انہوں نے ملزمان کے وکیل کے طور پر خدمات پیش کیں۔ اس طرح وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں بھی آئے۔

پرویز مشرف اوردیگر عسکری شخصیات کے اثاثوں سے متعلق انعام الرحیم نیب سے بھی رجوع کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے اثاثوں کے بارے میں انھوں نے مختلف فورمز پر درخواستیں بھی دیں۔

انعام الرحیم نے جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک افغان سرحد پر انگوراڈہ کی چیک پوسٹ مبینہ طور پر افغانستان کے حوالے کرنے کے خلاف بھی ایک رٹ پٹیشن کررکھی تھی جس میں اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو بھی ملزم نامزد کررکھا تھا۔

حال ہی میں عاصم سلیم باجوہ کی رئٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طورپر تعیناتی کے بعد یہ معاملہ ایک بارپھر سامنے آیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں